شبنم نے صبح کی ہوا سے رو کر کہا ، میں تجھ سے ایک مہربانی کی توقع رکھتی ہوں۔
پھول کی صحبت سے میرا دل افسردہ ہو چکا ہے، اب اس طرح گزر کہ میں گھاس پر گروں (خواص سے نا امید ہوں)۔
To the morning breeze’ weep’d the dew’ in trance, I cherish from thee a favour of glance.
I have fostered gloom from the Rose,’ alas! Thus pass in a way that I fall on grass.