ارمغانِ حجاز · حضور ملت
بحق دل بند و راہ مصطفی رو
اللہ تعالی سے دل لگا اور حضور اکرم (صلعم) کی اتباع کر۔
Follow the Path of the Beloved and the Way of Mustafa
(01)
بہ منزل کوش مانند مہ نو
درین نیلی فضا ہر دم فزون شو
مقام خویش اگر خواہی درین دیر
بحق دل بند و راہ مصطفی رو
نئے چاند کی مانند منزل تک پہنچنے کی کوشش کر اس فضائے نیلگوں میں ہر دم بڑھتا جا۔ اگر تو بتخانہ (ءدنیا) میں اپنا مقام پانا چاہتا ہے تو اللہ تعالے سے دل لگا اور حضور اکرم (صلعم) کی اتباع کر۔
Be nearer to the aim like a moon new, Seek the higher heights with efforts anew. A place in this lane if you wish to make, Make a tie with God in the Prophet’s wake.
(02)
چو موج از بحر خود بالیدہ ام من
بخود مثل گہر پیچیدہ ام من
از آن نمرود با من سر گران است
بہ تعمیر حرم کوشیدہ ام من
میں موج کی مانند اپنے سمندر سے اٹھا ہوں؛ اور موتی کی مانند اپنی نشو و نما پر متوجہ رہا ہوں۔ نمرود اس لیے مجھ سے ناراض ہے ؛ کہ میں حرم کی تعمیر میں کوشاں ہوں۔
My self’s own sea gave a rise to me, It sharpen’d my wits like pearls in sea. On me that ‘Nimrod’ is boiling with rage. Fm trying to build up ‘Harem’s’ image.
(03)
بیا ساقی بگردان ساتگین را
بیفشان بر دو گیتی آستین را
حقیقت را بہ رندی فاش کردند
کہ ملا کم شناسد رمز دین را
ساقی ! اٹھ اور جام مے آگے بڑھا؛ دونوں جہانوں پر اپنا دامن جھاڑ دے۔ (اس دور میں) مجھ جیسے رند پر حقیقت فاش کی گئی ہے؛ کیونکہ ملّا راز دین سمجھنے سے قاصر ہے۔
Come O’ bearer and move the cup of Wine, And leave the worlds both under long veils line, He raised all the curtains before this sot, The codes of His Path the ‘Mullah’ knew not.
(04)
بیا ساقی نقاب از رخ برافکن
چکید از چشم من خون دل من
بہ آن لحنی کہ نہ شرقی نہ غربی است
نوائی از مقام لاتخف زن
ساقی ! اٹھ اپنے چہرے سے نقاب اٹھا (اور دیکھ) ؛ میرے دل کا خون میری آنکھوں سے ٹپک رہا ہے۔ اور مقام سے اس لے میں؛ نوا ریز ہو ، جو نہ شرقی ہے ، نہ غربی۔
Come O’ bearer and raise the veils aside, Cause my heart’s blood’ dripping from the eyes side. From a tone which gives no East or. West trace, Send a ‘no fear note’ from the ‘no fear place.’
(05)
برون از سینہ کش تکبیر خود را
بخاک خویش زن اکسیر خود را
خودی را گیر و محکم گیر و خوش زی
مدہ در دست کس تقدیر خود را
اپنے سینہ سے (نعرہء) تکبیر باہر نکال (زبان پر لا) ؛ اور اپنی (اس) اکسیر کو اپنی خاک پر ڈال۔ خودی کو پکڑ ، مضبوطی سے پکڑ اور خوش رہ ؛ اپنی تقدیر کسی اور کے ہاتھ میں نہ دے (خود اپنی تقدیر بن)۔
Raise from thy bosom a ‘Call of God Great’, Hit thy own exir on thy dusty fate. Gaurd thy ego ever, lead a life nice, To none give thy luck at any great price.
(06)
مسلمان از خودی مرد تمام است
بخاکش تا خودی میرد غلام است
اگر خود را متاع خویش دانی
نگہ را جز بخود بستن حرام است
مسلمان ، خودی (کے استحکام) سے انسان کامل بنتا ہے؛ اس کے بدن میں خودی مر جائے، تو وہ غلام ہے۔ اگر تو اپنے آپ کو اپنی متاع جانے ؛ (تو یہ نکتہ سمجھ جائے کہ) اپنے علاوہ کسی اور پر توجہ مرکوز کرنا حرام ہے۔
From self a Muslim is man perfect He is slave when it dies in heart in fact. If you take thy ‘self’, ‘a priceless’ lot, To look save Thee is a tabood thought.
(07)
مسلمانان کہ خود را فاش دیدند
بہ ہر دریا چو گوھر آرمیدند
اگر از خود رمیدند اندرین دیر
بجان تو کہ مرگ خود خریدند
وہ مسلمان جنہوں نے اپنے آپ کو پوری طرح دیکھ لیا؛ وہ ہر دریائے (مصیبت) میں گوہر کی مانند پر سکون رہے ۔ لیکن اگر وہ اس بتخانہ (ء دہر) میں اپنے آپ سے گریزاں رہیں؛ تو تیری جان کی قسم ! انہوں نے (اپنے ہاتھوں ) اپنی موت خریدی۔
As long the Muslim, in self can peep, Like pearls they rest in the oceans deep. From ego if you ran in this fane, Your own death you buy for life’s bargain.
(08)
گشودم پردہء از روی تقدیر
مشو نومید و راہ مصطفی گیر
اگر باور نداری آنچہ گفتم
ز دین بگریز و مرگ کافری میر
میں نے تقدیر کے چہرے سے پردہ اٹھا دیا ہے ؛ نا امید نہ ہو اور حضور اکرم (صلعم) کی راہ اختیار کر۔ لیکن اگر تجھے میری بات کا اعتبار نہیں؛ تو اسلام چھوڑ اور کافر کی موت مر۔
The veils of thy fortune lo! I ope, Take the Prophet’s path give up no hope. If you believe not whatever I say, Give up the faith and die in Kafir’s way.
(09)
بہ ترکان بستہ درہا را گشادند
بنای مصریان محکم نھادند
تو ہم دستی بدامان خودی زن
کہ بے او ملک و دین کس را ندادند
ترکوں کے لیے بند دروازے کھول دیے گئے؛ مصریوں کی بنیاد مستحکم کر دی گئی۔ تو بھی خودی کا دامن پکڑ ؛ اس کے بغیر (کبھی ) کسی کو ملک و دین نہیں ملا۔
Now all the shut doors for Turks are ope. The Egypt’s base would be firm I hope. You give a rap too at the Ego’s door, None knew without it his faith and land’s lore
(10)
ہر آن قومی کہ می ریزد بہارش
نسازد جز بہ بوہای رمیدہ
ز خاکش لالہ می روید ولیکن
قبائے دارد از رنگ پریدہ
ہر (زوال پذیر) قوم، جس کی بہار جا چکی ہو ؛ انہی خوشبوؤں کو سینے سے لگائے رکھتی ہے جو ختم ہو چکی ہے۔ اس خاک سے (گل) لالہ اگتا تو ہے، مگر ، اس کی قبائے (سرخ) کا رنگ اڑا ہوا ہوتا ہے۔
A nation whose spring falls to decay, She always craves for the good old days. A poppy grows though from her dusty gems, It also takes a gown of fading stems.
(11)
خدا آن ملتی را سروری داد
کہ تقدیرش بدست خویش بنوشت
بہ آن ملت سروکاری ندارد
کہ دہقانش برای دیگران کشت
للہ تعالے صرف اسی قوم کو سرداری عطا فرماتے ہیں ؛ جو خود اپنے ہاتھ سے اپنی تقدیر لکھتی ہے۔ اللہ تعالے ایسی قوم سے کوئی سروکار نہیں رکھتے؛ جس کا دہقان دوسروں کے لیے کھیتی بوتا ہے۔
God gave that nation a sway o’er lands, Who shaped her fortunes with her hands. With that nation he keeps no links. Whose farmer tills for other’s drinks
(12)
ز رازی حکمت قرآن بیاموز
چراغی از چراغ او بر افروز
ولی این نکتہ را از من فرا گیر
کہ نتوان زیستن بے مستی و سوز
(بے شک) رازی سے قرآن پاک کی حکمت سیکھ؛ اس کے چراغ سے اپنا چراغ جلا۔ لیکن مجھ سے یہ نکتہ سمجھ لے؛ کہ مستی ء سوز (عشق) کے بغیر زندہ نہیں رہا جا سکتا ۔
From Razi thus learn the Quran’s insight, From his lamp he lit up his own lamp’s light. But a point from me you must learn hence, That can’t be life, lacking flame and trance.
English Translation by: Qazi Ahdul Kabir
ارمغانِ حجاز > حضور ملت
خودی