در بیان اینکہ اصل نظام عالم
Life Of All Individuals Depends On Strengthening The Self
در بیان اینکہ اصل نظام عالم از خودی است و تسلسل حیات تعینات وجود بر استحکام خودی انحصاردارد
اس بیان میں کہ نظام کائنات کی بنیاد خودی ہے اور حیات کے مختلف پیکروں کی تعیین اور ان کا ارتقا ء خودی کے استحکام پر منحصر ہے۔
Showing that the system of the universe originates in the self and that the continuation of the life of all individuals depends on strengthening the self.
پیکر 
ھستی 
ز 
ثار 
خودی 
است 
ہر 
چہ 
می 
بینی 
ز 
اسرار 
خودی 
است 
زندگی کا وجود خودی کے آثار (نشانات) میں سے ہے؛ جو کچھ تو دیکھتا ہے یہ خودی ہی کے اسرار (کا اظہار) ہے۔
The form of existence is an effect of the self; whatsoever thou seest is a secret of the self.
خویشتن 
را 
چون 
خودی 
بیدار 
کرد 
آشکارا 
عالم 
پندار 
کرد 
جب خودی نے اپنے آپ کو بیدار کیا؛ تو یہ عالم پندار (دنیا) ظاہر ہوا۔
When the self awoke to consciousness; it revealed the universe of Thought.
صد 
جہان 
پوشیدہ 
اندر 
ذات 
او 
غیر 
او 
پیداست 
از 
اثبات 
او 
خودی کی ذات میں سینکڑوں جہان مخفی ہیں؛ جب خودی اپنا اثبات یعنی اپنی قوّت کا اظہار کرتی ہے تو ایک نیا جہان پیدا ہو جاتا ہے، جو خودی کی ذات سے علیحدہ ہوتا ہے۔
A hundred words are hidden in its essence: Self-affirmation brings not-self to light.
در 
جہان 
تخم 
خصومت 
کاشت 
است 
خویشتن 
را 
غیر 
خود 
پنداشت 
است 
(اس طرح) خودی نے اپنے آپ کو اپنا غیر سمجھ کر کائنات میں کشمکش کا بیج بویا۔
By the self the seed of opposition is sown in the world: It imagines itself to be other than itself.
سازد 
از 
خود 
پیکر 
اغیار 
را 
تا 
فزاید 
لذت 
پیکار 
را 
وہ اپنے آپ ہی سے اپنے اغیار کے پیکر تیار کرتی ہے؛ تاکہ جدل باہم کی لذّت بڑھے (فلسفہ ء جدلیات)۔
It makes from itself the forms of others; in order to multiply the pleasure of strife.
میکشد 
از 
قوت 
بازوی 
خویش 
تا 
شود 
گاہ 
از 
نیروی 
خویش 
پھر وہ اپنی قوّت بازو سے ( ان میں سے بعض کو) فنا کر دیتی ہے (بقائے اصلح) تاکہ اسے اپنی قوّت سے آگاہی حاصل ہو۔
It is slaying by the strength of its arm; that it may become conscious of its own strength.
خود 
فریبی 
ہای 
او 
عین 
حیات 
ہمچو 
گل 
از 
خون 
وضو 
عین 
حیات 
اس کی یہی خود فریبیاں اپنے آپ سے اپنا غیر پیدا کرنا اور پھر اسے غیر سمجھ کر فنا کر دینا عین حیات ہیں، پھول کی مانند خون سے وضو کرنا ہی اس کی زندگی ہے،
Its self-deceptions are the essence of Life; like the rose, it lives by bathing itself in blood.
بہر 
یک 
گل 
خون 
صد 
گلشن 
کند 
از 
پی 
یک 
نغمہ 
صد 
شیون 
کند 
وہ ایک پھول کی خاطر سینکڑوں گلشنوں کا خون کر دیتی ہے (کئی گلشنوں کے تجربوں کے بعد ایک خوب صورت پھول پیدا ہوتا ہے)۔ ایک نغمہ کی خاطر سینکڑوں نالے بلند کرتی ہے (سینکڑوں نالوں کے پس منظر سے ایک دل آویز نغمہ ابھرتا ہے)۔
For the sake of a single rose it destroys a hundred rose gardens; and makes a hundred lamentations in quest of a single melody.
یک 
فلک 
را 
صد 
ہلال 
وردہ 
است 
بہر 
حرفی 
صد 
مقال 
وردہ 
است 
ایک آسمان (کی سجاوٹ) کے لیے صدہا ہلال لاتی ہے؛ ایک حرف (مطلب کہنے ) کے لیے سینکڑوں انداز بیان لاتی ہے۔
For one sky it produces a hundred new moons; and for one word a hundred discourses.
عذر 
این 
اسراف 
و 
این 
سنگین 
دلی 
خلق 
و 
تکمیل 
جمال 
معنوی 
اس اصراف اور بیدردی (بہت سی چیزوں کو بنا کر مٹا دینے) کا جواز (لذت) تخلیق اور تکمیل جمال معنوی (کے ذریعہ ذوق حسن کی تسکین) ہے ۔ ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں۔
The excuse for this wastefulness and cruelty: Is the shaping and perfecting of spiritual beauty.
حسن 
شیرین 
عذر 
درد 
کوہکن 
نافہ 
ئے 
عذر 
صد 
ہوی 
ختن 
حسن شیریں کوہکن کے دکھ کا جواز ہے؛ اسی طرح ایک مشک ناف سینکڑوں آہوان ختن کے اتلاف کا جواز ہے۔
The loveliness of Shirin justifies the anguish of Farhad. One fragrant navel justifies a hundred musk-deer.
سوز 
پیہم 
قسمت 
پروانہ 
ہا 
شمع 
عذر 
محنت 
پروانہ 
ہا 
پروانوں کی قسمت میں یہ جو سوز پیہم ہے، جس کی وجہ سے وہ اتنی مشقت اٹھاتے ہیں ؛ اس کا جواز ایک شمع (روشن) ہے۔
'Tis the fate of moths to consume in flame: The suffering of moths is justified by the candle.
خامہ 
ی 
او 
نقش 
صد 
امروز 
بست 
تا 
بیارد 
صبح 
فردائی 
بدست 
خودی کے قلم نے سینکڑوں امروز (آج) کے نقوش بنائے (اور مٹائے) تاکہ ایک (حسین) کل کی صبح سامنے لائے۔
The pencil of the self limned a hundred to-days; in order to achieve the dawn of a single morrow.
شعلہ 
ہای 
او 
صد 
ابراہیم 
سوخت 
تا 
چراغ 
یک 
محمد 
بر 
فروخت 
اس کے شعلوں نے سینکڑوں ابراہیم جلا دیئے ؛ تاکہ ایک محمد (صلعم) کا چراغ روشن ہو، (یہ تکمیل جمال معنوی کی مثالیں ہیں۔)
Its flames burned a hundred Abrahams; that the lamp of one Muhammad might be lighted.
می 
شود 
از 
بہر 
اغراض 
عمل 
عامل 
و 
معمول 
و 
اسباب 
و 
علل 
عمل کی اغراض پوری کرنے کے لیے خودی کبھی عامل بنتی ہے؛ کبھی معمول اور کبھی اسباب و ذرائع۔
Subject, object, means, and causes – all these are forms which it assumes for the purpose of action.
خیزد، 
انگیزد، 
پرد، 
تابد، 
رمد 
سوزد، 
افروزد، 
کشد، 
میرد، 
دمد 
وہ اٹھتی ہے ، اٹھاتی ہے، اڑتی ہے، چمکتی ہے، بھاگتی ہے؛ جلتی ہے، روشن کرتی ہے، مارتی ہے، مرتی ہے ، زندہ ہوتی ہے۔
The self rises, kindles, falls, glows, breathes; burns, shines, walks, and flies.
وسعت 
ایام 
جولانگاہ 
او 
سمان 
موجی 
ز 
گرد 
راہ 
او 
زمانے کی فراخی اس کی جولانیوں کا میدان ہے ، آسمان اس کی گرد راہ سے (اٹھتی ہوئی) ایک موج ہے۔
The spaciousness of Time is its arena; heaven is a billow of the dust on the road.
گل 
بجیب 
فاق 
از 
گلکاریش 
شب 
ز 
خوابش، 
روز 
از 
بیداریش 
خودی ہی کی گلکاریوں نے آفاق کا دامن گلوں سے بھر دیا ہے، رات اس کی نیند سے ہے اور دن اس کی بیداری ہے۔
From its rose-planting the world abounds in roses; night is born of its sleep, day springs from its waking.
شعلہ 
ی 
خود 
در 
شرر 
تقسیم 
کرد 
جز 
پرستی 
عقل 
را 
تعلیم 
کرد 
اس نے اپنے شعلہ کو چنگاریوں میں تقسیم کر دیا ؛ اب عقل ایک ایک چنگاری کو سمجھنے کے پیچھے پڑی ہوئی ہے (یہ عقل کی خبر پرستی ہے )۔
It divided its flame into sparks; and taught the understanding to worship particulars.
خود 
شکن 
گردید 
و 
اجزا 
فرید 
اندکے 
شفت 
و 
صحرا 
فرید 
اس نے اپنے آپ کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے اجزا پیدا کر دیئے ؛ ذرا آشفتہ ہوئی تو صحرا بنا دیئے۔
It dissolved itself and created the atoms. It was scattered for a little while and created sands.
باز 
از 
شفتگی 
بیزار 
شد 
وز 
بہم 
پیوستگی 
کہسار 
شد 
پھر آشفتگی سے بیزار ہوئی تو باہم پیوستگی سے پہاڑ بن گئی۔
Then it wearied of dispersion; and by re-uniting itself it became the mountains.
وانمودن 
خویش 
را 
خوی 
خودی 
است 
خفتہ 
در 
ہر 
ذرہ 
نیروی 
خودی 
است 
اپنا اظہار خودی کی عادت ہے، ہر ذرّہ میں خودی کی قوّت خوابیدہ ہے ، (جب وہ بیدار ہوتی ہے تو اظہار چاہتی ہے)۔
'Tis the nature of the self to manifest itself; in every atom slumbers the might of the self.
قوت 
خاموش 
و 
بیتاب 
عمل 
از 
عمل 
پابند 
اسباب 
عمل 
خودی قوّت خاموش ہے، مگر عمل کے لیے بیتاب ہے؛ وہ عمل ہی کی خاطر اسباب عمل کی پابندی اختیار کرتی ہے۔
Power that is unexpressed and inert chains the faculties which lead to action.
چون 
حیات 
عالم 
از 
زور 
خودی 
است 
پس 
بقدر 
استواری 
زندگی 
است 
چونکہ اس جہان کی زندگی کا دار و مدار خودی کی قوّت پر ہے؛ اس لیے ہر وجود کی زندگی (کا درجہ) اس کی خودی کے استحکام کے مطابق ہے۔
Inasmuch as the life of the universe comes from the power of the self; life is in proportion to this power.
قطرہ 
چون 
حرف 
خودی 
ازبر 
کند 
ہستنی 
بے 
مایہ 
را 
گوہر 
کند 
جب قطرہ خودی کا سبق ازبر کر لیتا ہے ؛ تو اپنی بے قیمت زندگی کو (قیمتی) موتی بنا لیتا ہے۔
When a drop of water gets the self's lesson by heart, it makes its worthless existence a pearl.
بادہ 
از 
ضعف 
خودی 
بے 
پیکر 
است 
پیکرش 
منت 
پذیر 
ساغر 
است 
ضعف خودی کے باعث شراب کا اپنا کوئی پیکر نہیں؛ اسے پیکر اختیار کرنے کے لیے ساغر کا احسان اٹھانا پڑتا ہے۔
Wine is formless because its self is weak; it receives a form by favour of the cup.
گرچہ 
پیکر 
می 
پذیرد 
جام 
مے 
گردش 
از 
ما 
وام 
گیرد 
جام 
می 
اگرچہ جام شراب پیکر رکھتا ہے ، مگر وہ گردش ہم سے ادھار لیتا ہے (گردش کے لیے ہمارے ہاتھوں کا محتاج ہے)۔
Although the cup of wine assumes a form, it is indebted to us for its motion.
کوہ 
چون 
از 
خود 
رود 
صحرا 
شود 
شکوہ 
سنج 
جوشش 
دریا 
شود 
جب پہاڑ اپنے آپ کو چھوڑ دیتا ہے ، تو صحرا بن جاتا ہے، پھر دریا کے سیلاب کی شکائیت کرتا ہے۔
When the mountain loses its self, it turns into sands; and complains that the sea surges over it.
موج 
تا 
موج 
است 
در 
غوش 
بحر 
می 
کند 
خود 
را 
سوار 
دوش 
بحر 
موج جب تک آغوش بحر میں موج بن کر رہتی ہے ، وہ سمندر کے کندھوں پر سوار ہوتی ہے۔
The wave, so long as it remains a wave in the sea’s bosom, makes itself rider on the sea's back.
حلقہ 
ئے 
زد 
نور 
تا 
گردید 
چشم 
از 
تلاش 
جلوہ 
ہا 
جنبید 
چشم 
نور نے اپنی خودی سے کام لے کر حلقے کی شکل اختیار کی تو وہ آنکھ بن گیا ، پھر آنکھ نے جلوں کی تلاش میں جھپکنا سیکھا۔
Light transformed itself into an eye and moved to and fro in search of beauty.
سبزہ 
چون 
تاب 
دمید 
از 
خویش 
یافت 
ہمت 
او 
سینہ 
ی 
گلشن 
شکافت 
جب سبزے نے اپنے اندر اگنے کی قوّت پیدا کی تو اس کی ہمت نے باغ کا سینہ چاک کر دیا۔
When the grass found a means of growth in its self, its aspiration clove the breast of the garden.
شمع 
ہم 
خود 
را 
بخود 
زنجیر 
کرد 
خویش 
را 
از 
ذرہ 
ہا 
تعمیر 
کرد 
شمع نے اپنے آپ کو اپنے آپ سے منسلک کر لیا اور اس طرح ذرّوں سے اپنی تعمیر کی۔
The candle too concatenated itself and built itself out of atoms.
خود 
گدازی 
پیشہ 
کرد 
از 
خود 
رمید 
ہم 
چو 
اشک 
خر 
ز 
چشم 
خود 
چکید 
پھر جب اس نے اپنے آپ کو پگھلانا شروع کیا تو اپنی خودی سے دور ہو گئی اور بالآخر آنسو کی طرح اپنی آنکھ سے ٹپک پڑی۔
Then it made a practice of melting itself away and fled from its self; until at last it trickled down from its own eye, like tears.
گر 
بفطرت 
پختہ 
تر 
بودے 
نگین 
از 
جراحت 
ہا 
بیاسودی 
نگین 
اگر نگینہ اپنی فطرت میں پختہ تر ہوتا ، تو وہ ان زخموں سے بچا رہتا (جو اسے گھڑنے کے وقت لگائے جاتے ہیں)۔
If the bezel had been more self secure by nature, it would not have suffered wounds.
می 
شود 
سرمایہ 
دار 
نام 
غیر 
دوش 
او 
مجروح 
بار 
نام 
غیر 
اب اس پر غیر کا نام لکھا جاتا ہے، اور اس کا کندھا دوسرے کے نام کے بوجھ سے زخمی ہوتا ہے۔
But since it derives its value from the superscription; its shoulder is galled by the burden of another's name.
چون 
زمین 
بر 
ہستی 
خود 
محکم 
است 
ماہ 
پابند 
طواف 
پیہم 
است 
چونکہ زمین اپنی فطرت میں محکم ہے (اس نے اپنی خودی برقرار رکھی ہے) اس لیے چاند ہمیشہ اس کے طواف کا پابند ہے،
Because the earth is firmly based on its self; the captive moon goes round it perpetually.
ہستی 
مہر 
از 
زمین 
محکم 
تر 
است 
پس 
زمین 
مسحور 
چشم 
خاور 
است 
چونکہ سورج کا وجود زمین سے زیادہ محکم ہے؛ اس لیے زمین سورج کی آنکھ سے مسحور ہے (اور اس کے گرد چکر لگاتی ہے)۔
The being of the sun is stronger than that of the earth: Therefore is the earth fascinated by the sun's eye.
جنبش 
از 
مژگان 
برد 
شان 
چنار 
مایہ 
دار 
از 
سطوت 
او 
کوہسار 
چنار کی (بلند شان) کو دیکھ کر آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں چنانچہ پہاڑ اس کی سطوت کو اپنی دولت سمجھتے ہیں۔
The glory of the red birch fixes our gaze; the mountains are enriched by its majesty.
تار 
و 
پود 
کسوت 
او 
تش 
است 
اصل 
او 
یک 
دانہ 
ی 
گردن 
کش 
است 
چنار کے لباس کا تار و پود آگ سے ہے؛ کیونکہ اس کی اصل ایک بلند ہمت دانہ سے ہے۔
Its raiment is woven of fire; its origin is one self-assertive seed.
چون 
خودی 
رد 
بہم 
نیروی 
زیست 
می 
گشاید 
قلزمی 
از 
جوی 
زیست 
جب خودی زندگی کی قوّت بہم پہنچاتی ہے؛ تو وہ زندگی کی ندی سے سمندر پیدا کر لیتی ہے۔
When Life gathers strength from the self, the river of Life expands into an ocean.
English Translation by: Reynold A. Nicholson
اسرارِ خودی
در بیان اینکہ حیات خودی