اسرارِ خودی
تمہید
Prologue
"نیست 
در 
خشک 
و 
تر 
بیشۂ 
من 
کوتاہی" 
"چوب 
ہر 
نخل 
کہ 
منبر 
نشود 
دارکنم" 
نظیری 
نیشابوری 
میرے جنگل کے خشک و تر میں کوئی ایسی چیز نہیں جو کار آمد نہ ہم؛ جس درخت کی لکڑی منبر بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتی میں اس سے سولی بنا دیتا ہوں نظیری نیشا پوری۔ (منبر پر سے وعظ کہا جاتا ہے اور سولی سے مراد شہدا کا مقام ہے۔)
There is nothing in my jungle, fresh or dry, which is not useful; dry wood which cannot be used for making a member, I make gallows of that.
راہ 
شب 
چون 
مہر 
عالمتاب 
زد 
گریۂ 
من 
بر 
رخ 
گل 
، 
آ 
ب 
زد 
جب دنیا کو روشن کرنے والے آفتاب نے رات کو ختم کر دیا؛ تو میرے آنسوؤں نے پھول کے چہرے پر پانی چھڑکا۔
When the world-illuming sun rushed upon night like a brigand; my weeping bedewed the face of the rose.
اشک 
من 
از 
چشم 
نرگس 
خواب 
شست 
سبزۂ 
از 
ہنگامہ 
ام 
بیدار 
رست 
میرے آنسوؤں نے نرگس کی آنکھ سے خواب کا اثر دھو دیا؛ میرے شور سے سبزہ بیدار ہو کر زمین سے نکل آیا۔
My tears washed away sleep from the eye of the narcissus; my passion wakened the grass and made it grow.
باغبان 
زور 
کلامم 
آ 
زمود 
مصرعے 
کارید 
و 
شمشیرے 
درود 
باغبان (فطرت) نے میرے کلام کے زور کو آزمایا؛ مصرع بویا اور شمشیر کاٹی (مصرع بویا تو وہ بڑھ کر شمشیر بن گیا)۔
The Gardener tried the power of my song, he sowed my verse and reaped a sword.
در 
چمن 
جز 
دانۂ 
اشکم 
نکشت 
تار 
افغانم 
بہ 
پود 
باغ 
رشت 
اس نے باغ میں میرے آنسو کے دانے کے علاوہ اور کچھ نہ بویا؛ اس نے میری فغاں کے تار کو باغ کے پود سے ملا دیا (تار و پود سے کپڑا بنا جاتا ہے)۔
In the soil he planted only the seed of my tears; and wove my lament with the garden, as warp and woof.
ذرہ 
ام 
مہر 
منیر 
ن 
من 
است 
صد 
سحر 
اندر 
گریبان 
من 
است 
گو میں ایک ذرّہ ہوں لیکن سورج کی ساری روشنی میرے ایک لحظہ کے برابر ہے؛ میرے گریبان میں سینکڑوں صبحیں مستور ہیں (میں ہر روز ایک نئی صبح طلوع کر سکتا ہوں)۔
Tho’ I am but a mote, the radiant sun is mine: Within my bosom are a hundred dawns.
خاک 
من 
روشن 
تر 
از 
جام 
جم 
است 
محرم 
از 
نازادہای 
عالم 
است 
میری خاک جمشید کے جام سے زیادہ روشن ہے؛ میں ان واقعات سے با خبر ہوں جو ابھی دنیا کے اندر وجود میں نہیں آئے۔
My dust is brighter than Jamshid's cup; it knows things that are yet unborn in the world.
فکرم 
ن 
ہو 
سر 
فتراک 
بست 
کو 
ہنوز 
از 
نیستی 
بیرون 
نجست 
میرے فکر نے (معنی کے) وہ غزال اپنے شکار بند میں باندھ لیے ہیں؛ جو ابھی تک عدم سے وجود میں نہیں آئے۔
My thought hunted down and slung from the saddle a deer; that has not yet leaped forth from the covert of non-existence.
سبزہ 
نا 
روئیدہ 
زیب 
گلشنم 
گل 
بشاخ 
اندر 
نہان 
در 
دامنم 
وہ سبزہ جو ابھی اگا نہيں میرے گلشن فکر کی زیب و زینت ہے؛ پھول جو ابھی شاخ سے پھوٹے نہیں وہ میرے دامن ( فکر) میں ہیں۔
Fair is my garden ere yet the leaves are green; unborn roses are hidden in the skirt of my garment.
محفل 
رامشگری 
برھم 
زدم 
زخمہ 
بر 
تار 
رگ 
عالم 
زدم 
میں عیش و طرب کی محفل برہم کرنے والا ہوں؛ یں رگ عالم کے تار کو اپنے مضراب سے چھیڑتا ہوں۔
I struck dumb the musicians where they were gathered together; I smote the heart-string of the universe.
بسکہ 
عود 
فطرتم 
نادر 
نوا 
ست 
ہم 
نشین 
از 
نغمہ 
ام 
نا 
شنا 
ست 
کیوں کہ میری فطرت کے ساز سے نادر نغمے پیدا ہو رہے ہیں؛ اس لیے میرے پاس بیٹھنے والے نغمے سے ناواقف ہیں۔
Because the lute of my genius hath a rare melody: Even to comrades my song is strange.
در 
جہان 
خورشید 
نوزائیدہ 
ام 
رسم 
و 
ئین 
فلک 
نادیدہ 
ام 
میں دنیا میں ایک نیا طلوع ہونے والا سورج ہوں؛ میں نے ابھی آسمان کے طور طریقے نہیں دیکھے۔
I am born in the world as a new sun; I have not learned the ways and fashions of the sky.
رم 
ندیدہ 
انجم 
از 
تابم 
ہنوز 
ہست 
نا 
شفتہ 
سیمابم 
ہنوز 
ابھی تک ستارے میری روشنی سے ماند نہیں پڑے؛ ابھی تک میرے پارے میں تڑپ پیدا نہیں ہوئی۔
Not yet have the stars fled before my splendour, not yet is my quicksilver astir.
بحر 
از 
رقص 
ضیایم 
بے 
نصیب 
کوہ 
از 
رنگ 
حنایم 
بے 
نصیب 
ابھی تک سمندر میری شعاؤں کے رقص سے بے نصیب ہے؛ ابھی تک پہاڑ نے میرا حنائی رنگ نہیں پایا۔
Untouched is the sea by my dancing rays; untouched are the mountains by my crimson hue.
خوگر 
من 
نیست 
چشم 
ہست 
و 
بود 
لرزہ 
بر 
تن 
خیزم 
از 
بیم 
نمود 
ابھی تک دنیا کی آنکھ میری خوگر نہیں ہوئی؛ میں خود بھی اپنے برسر عام آنے سے لرزہ بر اندام ہوں (کہ دیکھیں اس کا ردعمل کیا ہوتا ہے)۔
The eye of existence is not familiar with me; I rise trembling, afraid to show myself.
بامم 
از 
خاور 
رسید 
و 
شب 
شکست 
شبنم 
نو 
برگل 
عالم 
نشست 
(میرے آفتاب کی) صبح مشرق سے طلوع ہو چکی ہے اور رات کا اندھیرا ختم ہو چکا ہے؛ دنیا کے پھول پر (میرے آنسوؤں کی) نئی شبنم گر رہی ہے۔
From the East my dawn arrived and routed night; a fresh dew settled on the rose of the world.
انتظار 
صبح 
خیزان 
می 
کشم 
اے 
خوشا 
زرتشتیان 
تشم 
میں صبح سویرے اٹھنے والوں کے انتظار میں ہوں؛ کیا خوش نصیب ہیں وہ جو میرے آتشیں (جذبہ ) کے پرستار ہیں۔
I am waiting for the votaries that rise at dawn; oh, happy they who shall worship my fire!
نغمہ 
ام، 
از 
زخمہ 
بے 
پرواستم 
من 
نوای 
شاعر 
فرداستم 
میں ایسا نغمہ ہوں جو مضراب سے بے نیاز ہے؛ میں آنے والے دور کا شاعر ہوں۔
I have no need of the ear of to-day; I am the voice of the poet of To-morrow.
عصر 
من 
دانندۂ 
اسرار 
نیست 
یوسف 
من 
بہر 
این 
بازار 
نیست 
میرا دور اسرار کو نہیں سمجھتا؛ میرا یوسف اس بازار کے لائق نہیں۔
My own age does not understand my deep meanings; my Joseph is not for this market.
ناامید 
استم 
ز 
یاران 
قدیم 
طور 
من 
سوزد 
کہ 
مے 
ید 
کلیم 
میں اپنے پرانے دوستوں سے ناامید ہوں (کہ وہ میری بات سمجھ سکیں گے)؛ میرا طور جل رہا ہے (اور اس انتظار میں ہے کہ) کوئی کلیم آئے۔
I despair of my old companions; my Sinai burns for sake of the Moses who is coming.
قلزم 
یاران 
چو 
شبنم 
بے 
خروش 
شبنم 
من 
مثل 
یم 
طوفان 
بدوش 
میرے ساتھیوں کا سمندر شبنم کی طرح بغیر جوش و خروش کے ہے؛ اس کے برعکس میری شبنم سمندر کی مانند طوفانی ہے۔
Their sea is silent, like dew; but my dew is storm-ridden, like the ocean.
نغمہ 
ی 
من 
از 
جہان 
دیگر 
است 
این 
جرس 
را 
کاروان 
دیگر 
است 
میرے نغمے کا تعلق ایک اور ہی دنیا سے ہے؛ اس جرس کے لیے کوئی نیا قافلہ آئے گا۔
My song is of another world than theirs; This bell calls other travelers to take the road.
اے 
بسا 
شاعر 
کہ 
بعد 
از 
مرگ 
زاد 
چشم 
خود 
بر 
بست 
و 
چشم 
ما 
گشاد 
بہت سے شاعر ہیں جو مرنے کے بعد زندہ ہوتے (شہرت پاتے) ہیں؛ اپنی آنکھ موند لیتے ہیں اور ہماری آنکھ کھول دیتے ہیں۔
Many a poet was born after his death; opened our eyes when his own were closed.
رخت 
باز 
از 
نیستی 
بیرون 
کشید 
چون 
گل 
از 
خاک 
مزار 
خود 
دمید 
وہ عدم سے دوبارہ (زندگی کا) ساز و سامان لاتے ہیں؛ پھول کی مانند اپنے مزار کی خاک سے اگ آتے ہیں۔
And journeyed forth again from nothingness; like roses blossoming o'er the earth of his grave.
کاروان 
ہا 
گرچہ 
زین 
صحرا 
گذشت 
مثل 
گام 
ناقہ 
کم 
غوغا 
گذشت 
اگرچہ اس صحرا سے کئی قافلے گزرے ہیں؛ مگر وہ ناقہ کے قدموں کی مانند بغیر کسی شور و غوغا کے گزرے ہیں۔
Albeit caravans have passed through this desert; they passed, as a camel steps, with little sound.
عاشقم، 
فریاد، 
ایمان 
من 
است 
شور 
حشر 
از 
پیش 
خیزان 
من 
است 
میں عشق ہوں فریاد کرنا میرا ایمان ہے؛ میری فریاد سے اتنا شور اٹھتا ہے کہ اس کے مقابلے میں حشر کا شور ان ملازموں کی مانند ہے جو بادشاہ کی سواری کے آگے آگے بھاگتے اور اس کی آمد کی اطلاع دیتے ہیں۔
But I am a lover: loud crying is my faith; the clamour of Judgment Day is one of my minions.
نغمہ 
ام 
ز 
اندازۂ 
تار 
است 
بیش 
من 
نترسم 
از 
شکست 
عود 
خویش 
اگرچہ میرے ساز کے تار میرے نغمے کے متحمّل نہیں ہو سکتے؛ لیکن میں اس سے نہیں ڈرتا کہ وہ ٹوٹ جائیں گے (اپنا نغمہ ضرور سناؤں گا)۔
My song exceeds the range of the chord, yet I do not fear that my lute will break.
قطرہ 
از 
سیلاب 
من 
بیگانہ 
بہ 
قلزم 
از 
شوب 
او 
دیوانہ 
بہ 
قطرے (کم ہمت لوگوں) کے لیے میرے (نغمے کے) سیلاب سے دور رہنا ہی بہتر ہے؛ سمندر ہی کو اس کے شور سے دیوانگی حاصل کرنی چاہئے۔
’Twere better for the water drop not to know my torrent, whose fury should rather madden the sea.
در 
نمے 
گنجد 
بجو 
عمان 
من 
بحرہا 
باید 
پے 
طوفان 
من 
میرا سمندر کسی چھوٹی ندی میں نہیں سما سکتا؛ میرے طوفان کو سنبھالنے کے لیے کئی سمندر چاہئیں۔
No river will contain my Oman. My flood requires whole seas to hold it.
غنچہ 
کز 
بالیدگی 
گلشن 
نشد 
در 
خور 
ابر 
بھار 
من 
نشد 
وہ غنچہ جو نشو و نما پا کر گلشن کی طرح صورت اختیار نہیں کرتا وہ میرے نغمے کے ابر بہار کے لائق نہیں۔
Unless the bud expand into a bed of roses, it is unworthy of my spring-cloud's bounty.
برقہا 
خوابیدہ 
در 
جان 
من 
است 
کوہ 
و 
صحرا 
باب 
جولان 
من 
است 
میری جان میں بجلیاں خوابیدہ ہیں؛ کوہ و صحرا ہی میری تگ و تاز کے لائق ہیں۔
Lightnings slumber within my soul, I sweep over mountain and plain.
پنجہ 
کن 
با 
بحرم 
ار 
صحراستی 
برق 
من 
در 
گیر 
اگر 
سیناستی 
اگر تو صحرا ہے تب میرے صحرا کو گرفت میں لے؛ اگر تو طور سینا ہے تو پھر میری برق کو اپنے اندر سما۔
Wrestle with my sea, if thou art a plain; receive my lightning if thou art a Sinai.
چشمۂ 
حیوان 
براتم 
کردہ 
اند 
محرم 
راز 
حیاتم 
کردہ 
اند 
آب حیات میرے نصیب کیا گیا ہے؛ مجھے راز حیات کا محرم بنایا گیا ہے۔
The Fountain of Life hath been given me to drink. I have been made an adept of the mystery of Life.
ذرہ 
از 
سوز 
نوایم 
زندہ 
گشت 
پر 
گشود 
و 
کرمک 
تابندہ 
گشت 
میری نوا کی تپش سے ذرّہ زندہ ہو گیا ہے؛ اور پر و بال نکال کر جگنو بن گیا ہے۔
The speck of dust was vitalised by my burning song; It unfolded wings and became a firefly.
ہیچکس، 
رازی 
کہ 
من 
گویم، 
نگفت 
ہمچو 
فکر 
من 
در 
معنی 
نسفت 
جو راز میں بیان کر رہا ہوں وہ کسی اور نے بیان نہیں کیا؛ کسی نے معنی کے موتیوں کو اس طرح (ایک لڑی میں) نہیں پرویا۔
No one hath told the secret which I will tell; or threaded a pearl of thought like mine.
سر 
عیش 
جاودان 
خواہی 
بیا 
ہم 
زمین، 
ھم 
آسمان 
خواہی 
بیا 
اگر تو عیش جاوید کا راز معلوم کرنا چاہتا ہے تو میرے پاس آ؛ تو دنیا کا خواہاں ہو یا آخرت کا میرے پاس آ۔
Come, if thou wouldn’t know the secret of everlasting life. Come, if thou wouldn’t win both earth and heaven.
پیر 
گردون 
بامن 
این 
اسرار 
گفت 
از 
ندیمان 
رازہا 
نتوان 
نہفت 
یہ راز مجھے پیر گردوں نے بتائے ہیں؛ اگرچہ انہیں ظاہر نہیں کرنا چاہئے لیکن انہیں دوستوں سے پوشیدہ نہیں رکھا جا سکتا۔
Heaven taught me this lore, I cannot hide it from comrades.
ساقیا 
برخیز 
و 
می 
در 
جام 
کن 
محو 
از 
دل 
کاوش 
ایام 
کن 
اے ساقی! اٹھ اور میرے جام میں شراب ڈال دے جو دل سے زمانے کی کلفتیں دور کر دے۔
O Saki arise and pour wine into the cup! Clear the vexation of Time from my heart.
شعلہ 
ی 
بے 
کہ 
اصلش 
زمزم 
است 
گر 
گدا 
باشد 
پرستارش 
جم 
است 
وہ آتشیں شراب جس کی اصل زمزم سے ہے؛ اس کا چاہنے والا اگر گدا بھی ہو تو وہ بادشاہ ہے۔
The sparkling liquor that flows from Zemzem; were a beggar to worship it, he would become a king.
می 
کند 
اندیشہ 
را 
ہشیار 
تر 
دیدہ 
ی 
بیدار 
را 
بیدار 
تر 
ایسی شراب سوچ کو اور تیز کر دیتی ہے؛ اور جو آنکھ پہلے ہی بیدار ہو ا سے بیدار تر کر دیتی ہے۔
It makes thought more sober and wise; it makes the keen eye keener.
اعتبار 
کوہ 
بخشد 
کاہ 
را 
قوت 
شیران 
دہد 
روباہ 
را 
یہ تنکے کو پہاڑ کا وقار عطا کرتی ہے؛ اور لومڑی کو شیروں کی قوّت بخشتی ہے۔
It gives to a straw the weight of a mountain; and to foxes the strength of lions.
خاک 
را 
اوج 
ثریا 
میدہد 
قطرہ 
را 
پہنای 
دریا 
میدہد 
خاک کو ثریا کی بلندی دیتی ہے؛ اور قطرے کو سمندر کی وسعت۔
It causes dust to soar to the Pleiades; and a drop of water swell to the breadth of the sea.
خامشی 
را 
شورش 
محشر 
کند 
پای 
کبک 
از 
خون 
باز 
احمر 
کند 
یہ خاموشی کو شور قیامت میں تبدیل کر دیتی ہے؛ اور چکور کے پنجے کو باز سے لڑا دیتی ہے۔
It turns silence into the din of Judgment Day; it makes the foot of the partridge red with blood of the hawk.
خیز 
و 
در 
جامم 
شراب 
ناب 
ریز 
بر 
شب 
اندیشہ 
ام 
مہتاب 
ریز 
اٹھ اور میرے جام میں یہ خالص شراب ڈال؛ اور اس طرح میرے فکر کی رات پر چاندنی بکھیر دے۔
Arise and pour pure wine into my cup; pour moon beams into the dark night of my thought.
تا 
سوی 
منزل 
کشم 
وارہ 
را 
ذوق 
بیتابے 
دہم 
نظارہ 
را 
تاکہ میں بھٹکے ہوؤں کو منزل کی جانب لے جاؤں؛ اور (شوق) نظارہ کو ذوق بے تابی دوں۔
That I may lead home the wanderer; and imbue the idle looker-on with restless impatience.
گرم 
رو 
از 
جستجوی 
نو 
شوم 
روشناس 
رزوی 
نو 
شوم 
تاکہ میں ایک نئی جستجو کے راستے میں سرگرم ہو جاؤں؛ اور اپنے آپ کو نئی آرزو سے متعارف کروں۔
And advance hotly on a new quest; and become known as the champion of a new spirit.
چشم 
اھل 
ذوق 
را 
مردم 
شوم 
چون 
صدا 
در 
گوش 
عالم 
گم 
شوم 
اہل ذوق کی آنکھ کی پتلی بن جاؤں؛ اور دنیا کی آواز میں صدا کی طرح گم ہو جاؤں۔
And be to people of insight as the pupil to the eye; and sink into the ear of the world, like a voice.
قیمت 
جنس 
سخن 
بالا 
کنم 
ب 
چشم 
خویش 
در 
کالاکنم 
تاکہ میں متاع شاعری میں اپنے آنسو شامل کر کے اس کی قیمت بڑھا دوں۔
And exalt the worth of Poesy; and sprinkle the dry herbs with my tears.
باز 
بر 
خوانم 
ز 
فیض 
پیر 
روم 
دفتر 
سر 
بستہ 
اسرار 
علوم 
اور پیر روم کے فیض سے؛ اسرار علوم کے سربستہ دفتر کھول دوں۔
Inspired by the genius of the Master of Rum; I rehearse the sealed book of secret lore.
جان 
او 
از 
شعلہ 
ہا 
سرمایہ 
دار 
من 
فروغ 
یک 
نفس 
مثل 
شرار 
مولانا روم کی جان کئی شعلوں کی سرمایہ دار ہے؛ جبکہ میری چمک شرر کی مانند لمحہ بھر کی ہے۔
His soul is the flaming furnace, I am but as the spark that gleams for a moment.
شمع 
سوزان 
تاخت 
بر 
پروانہ 
ام 
بادہ 
شبخون 
ریخت 
بر 
پیمانہ 
ام 
اس کی جلتی ہوئی شمع نے مجھ پروانے پر یورش کر دی؛ گویا اس کی شراب نے میرے پیمانے پر شبخون مارا۔
His burning candle consumed me, the moth; His wine overwhelmed my goblet.
پیر 
رومی 
خاک 
را 
اکسیر 
کرد 
از 
غبارم 
جلوہ 
ہا 
تعمیر 
کرد 
پیر رومی نے میری خاک کو اکسیر بنا دیا؛ اور میرے غبار سے کئی جلوے پیدا کر دیئے۔
The master of Rum transmuted my earth to gold; and set my ashes aflame.
ذرہ 
از 
خاک 
بیابان 
رخت 
بست 
تا 
شعاع 
فتاب 
رد 
بدست 
میرے ذرّے نے بیابان کی خاک سے رخت (سفر) باندھا؛ تاکہ وہ آفتاب کی شعاع کو گرفت میں لے۔
The grain of sand set forth from the desert; that it might win the radiance of the sun.
موجم 
و 
در 
بحر 
او 
منزل 
کنم 
تا 
در 
تابندہ 
ئی 
حاصل 
کنم 
میں موج ہوں اور میں نے رومی کے سمندر کو اپنا مسکن بنایا ہے؛ تاکہ وہاں سے چمکدار موتی حاصل کروں۔
I am a wave and I will come to rest in his sea; that I may make the glistening pearl mine own.
من 
کہ 
مستی 
ہا 
ز 
صہبایش 
کنم 
زندگانے 
از 
نفس 
ہایش 
کنم 
یں جو اس کی شراب سے مستی حاصل کرتا ہوں؛ میری زندگی انہی کے دم سے ہے۔
I who am drunken with the wine of his song; draw life from the breath of his words.
شب 
دل 
من 
مایل 
فریاد 
بود 
خامشے 
از"یا 
ربم" 
باد 
بود 
رات میرا دل فریاد کناں تھا؛ رات کی خاموشی میری 'یا رب کی' آواز سے آباد ہو رہی تھی۔
'Twas night: my heart would fain lament. The silence was filled with my cries to God.
شکوہ 
شوب 
غم 
دوران 
بدم 
از 
تہی 
پیمانگی 
نالان 
بةدم 
میں نے غم دوراں کی شکائت کا طوفان اٹھا رکھا تھا اور اپنی بے سر و سامانی پر نالاں تھا۔
I was complaining of the sorrows of the world; and bewailing the emptiness of my cup.
این 
قدر 
نظارہ 
ام 
بیتاب 
شد 
بال 
و 
پر 
بشکست 
و 
خر 
خواب 
شد 
میری نگاہیں تڑپتے تڑپتے بال و پر کھو بیٹھیں اور میں سو گیا۔
At last mine eye could endure no more; broken with fatigue it went to sleep.
روی 
خود 
بنمود 
پیر 
حق 
سرشت 
کو 
بحرف 
پہلوی 
قر 
ن 
نوشت 
پیر حق سرشت (رومی) ظاہر ہوئے؛ وہ جنہوں نے فارسی زبان میں قران پاک کی حکمت بیان کی ہے۔
There appeared the Master, formed in the mould of Truth; who wrote the Quran in Persian.
گفت"اے 
دیوانہ 
ی 
ارباب 
عشق 
جرعہ 
ئی 
گیر 
از 
شراب 
ناب 
عشق 
انہوں نے فرمایا تو جو اہل عشق کا شیدائی ہے؛ عشق کی خالص شراب کا ایک گھونٹ پی لے۔
He said, ‘O frenzied lover; take a draught of love's pure wine.
بر 
جگر 
ہنگامہ 
ی 
محشر 
بزن 
شیشہ 
بر 
سر، 
دیدہ 
بر 
نشتر 
بزن 
(اور اس سے) اپنے جگر میں قیامت کا ہنگامہ پیدا کر؛ اس شراب سے سرمست ہو اور اشکوں کو خونتاب کر۔
Strike the chords of thine heart and rouse a tumultuous strain. Dash thine head against the goblet and thine eye against the lancet!
خندہ 
را 
سرمایہ 
ی 
صد 
نالہ 
ساز 
اشک 
خونین 
را 
جگر 
پرکالہ 
ساز 
اپنی ہنسی کو سینکڑوں نالوں کا سرمایہ بنا (اپنی ہنسی کو نالہ و فریاد میں بدل دے)؛ اپنے اشک خونیں میں جگر کے ٹکڑے ملا۔
Make thy laughter the source of a hundred sighs. Make the hearts of men bleed with thy tears.
تا 
بکی 
چون 
غنچہ 
می 
باشی 
خموش 
نکہت 
خود 
را 
چو 
گل 
ارزان 
فروش 
کب تک کلی کی مانند خاموش رہے گا؛ اپنی خوشبو کو پھول کی مانند عام کر دے۔
How long wilt thou be silent, like a bud? Sell thy fragrance cheap, like the rose!
در 
گرہ 
ہنگامہ 
داری 
چون 
سپند 
محمل 
خود 
بر 
سر 
تش 
بہ 
بند 
تو حرمل کے دانے کی طرح اپنے اندر ہنگامہ رکھتا ہے؛ اس لیے اپنے محمل (ناقہ) کو آتش پر باندھ لے۔
Tongue-tied, thou art in pain; Cast thyself upon the fire, like rue!
چون 
جرس 
خر 
ز 
ہر 
جزو 
بدن 
نالہ 
ی 
خاموش 
را 
بیرون 
فکن 
نالہ خاموش کو اپنے بدن کے ہر بن و مو سے جرس کی مانند باہر نکال۔
Like the bell, break silence at last, and from every limb. Utter forth a lamentation!
تش 
استی 
بزم 
عالم 
بر 
فروز 
دیگران 
را 
ھم 
ز 
سوز 
خود 
بسوز 
تو آگ ہے بزم کائنات کو جگمگا دے؛ دوسروں کو بھی سوز کی تپش عطا کر۔
Thou art fire: fill the world with thy glow! Make others burn with thy burning!
فاش 
گو 
اسرار 
پیر 
می 
فروش 
موج 
می 
شو 
کسوت 
مینا 
بپوش 
پیر مغاں کے راز برملا بیان کر؛ شراب کی موج بن اور مینا کا لباس پہن۔
Proclaim the secrets of the old wine seller; be thou a surge of wine, and the crystal cup thy robe!
سنگ 
شو 
ئینہ 
ی 
اندیشہ 
را 
بر 
سر 
بازار 
بشکن 
شیشہ 
را 
خرد کے آئینے کے لیے پتھر بن؛ اور اسے سر بازار توڑ دے۔
Shatter the mirror of fear; break the bottles in the bazaar
از 
نیستان 
ہمچو 
نے 
پیغام 
دہ 
قیس 
را 
از 
قوم"حی" 
پیغام 
دہ 
بانسری کی مانند نیستاں کا پیغام سنا؛ قیس کے لیے لیلی کا پیغام لا۔
Like the reed-flute, bring a message from the reed-bed. Give to Majnun a message from the tribe of Layla!
نالہ 
را 
انداز 
نو 
ایجاد 
کن 
بزم 
را 
از 
ہاے 
و 
ہو 
باد 
کن 
نالہ و فریاد کے لیے نئے انداز ایجاد کر؛ (افسردہ) محفل کو ہا و ہو سے گرم دے۔
Create a new style for thy song; enrich the assembly with thy piercing strains!
خیز 
و 
جان 
نو 
بدہ 
ہر 
زندہ 
را 
از"قم" 
خود 
زندہ 
تر 
کن 
زندہ 
را 
اٹھ اور زندہ شخص کو نئی جان عطا کر؛ لفظ '‍ قوم' کہہ کے زندوں میں اور زندگی بھر دے۔
Up, and re-inspire every living soul. Say 'Arise!' and by that word quicken the living!
خیز 
و 
پا 
بر 
جادہ 
ی 
دیگر 
بنہ 
جوش 
سودای 
کہن 
از 
سر 
بنہ 
اٹھ اور نئے راستے پر قدم رکھ؛ اپنے سر سے پرانی روایات کا سودا نکال دے۔
Up, and set thy feet on another path; put aside the passionate melancholy of old!
شنای 
لذت 
گفتار 
شو 
اے 
دراے 
کاروان 
بیدار 
شو" 
لذّت گفتار سے آشنا ہو (کچھ کہہ )؛ تو قافلہ کے لیے بانگ راحیل ہے، اٹھ (قافلے کو جگا)۔
Become familiar with the delight of singing; bell of the caravan, awake!‛
زین 
سخن 
تش 
بہ 
پیراہن 
شدم 
مثل 
نے 
ہنگامہ 
بستن 
شدم 
اس آواز نے میرے تن بدن میں آگ لگا دی؛ اور میں ہنگاموں بھری بانسری کی مانند ہوں۔
At these words my bosom was enkindled; and swelled with emotion like the flute.
چون 
نوا 
از 
تار 
خود 
برخاستم 
جنتی 
از 
بھر 
گوش 
راستم 
میں اپنے (ساز کے) تار سے نغمے کی مانند اٹھا؛ اور میں نے سماعت کے لیے جنت سجا دی۔(غالب نے جنت نگاہ اور فردوس گوش کی اصطلاحیں استعمال کی ہیں)
I rose like music from the string; to prepare a Paradise for the ear.
بر 
گرفتم 
پردہ 
از 
راز 
خودی 
وا 
نمودم 
سر 
اعجاز 
خودی 
میں نے خودی کے راز سے پردہ اٹھا دیا؛ اور اس کے اعجاز پوری طرح ظاہر کر دیئے۔
I unveiled the mystery of the self; and disclosed its wondrous secret.
بود 
نقش 
ہستیم 
انگارہ 
ئی 
نا 
قبولی، 
ناکسے، 
ناکارہ 
ئی 
میرا وجود ایک ناتمام نقش تھا؛ ناقابل قبول، بے قیمت اور ناکارہ۔
My being was an unfinished statue; uncomely, worthless, good for nothing.
عشق 
سوہان 
زد 
مرا، 
دم 
شدم 
عالم 
کیف 
و 
کم 
عالم 
شدم 
عشق نے مجھے سان پر چڑھایا تو میں آدم بنا؛ اور میں نے اس جہان کی اشیاء کا علم پایا۔
Love chiselled me: I became a man. And gained knowledge of the nature of the universe.
حرکت 
اعصاب 
گردون 
دیدہ 
ام 
در 
رگ 
مہ 
گردش 
خون 
دیدہ 
ام 
میں نے آسمان کے اعصاب کی حرکت دیکھ لی؛ مجھے چاند کی رگوں میں گردش کرتا ہوا خون نظر آ گیا۔
I have seen the movement of the sinews of the sky. And the blood coursing in the veins of the moon.
بہر 
انسان 
چشم 
من 
شبہا 
گریست 
تا 
دریدم 
پردہ 
ی 
اسرار 
زیست 
میں نے انسان کے غم میں رو رو کر راتیں گزار دیں؛ تب کہیں جا کر میں زندگی کے رازوں پر سے پردہ اٹھانے میں کامیاب ہوا۔
Many a night I wept for Man's sake; that I might tear the veil from Life's mysteries.
از 
درون 
کارگاہ 
ممکنات 
بر 
کشیدم 
سر 
تقویم 
حیات 
میں نے ممکنات کے کارخانے کے اندر سے؛ زندگی کے استحکام کا راز (لائحہ عمل ) نکال لیا ہے۔
And extract the secret of Life's constitution; from the laboratory of phenomena.
من 
کہ 
این 
شب 
را 
چو 
مہ 
راستم 
گرد 
پای 
ملت 
بیضاستم 
میں جس نے (زندگی کی) رات کو چاند کی طرح خوبصورت بنا دیا ہے؛ میں فقط ملّت بیضا کی گرد پا ہوں۔
I who give beauty to this night, like the moon; am as dust in devotion to the pure Faith (Islam).
ملتی 
در 
باغ 
و 
راغ 
وازہ 
اش 
تش 
دلہا 
سرود 
تازہ 
اش 
وہ ملّت جس کا شہرہ باغ و راغ میں ہے؛ جس کے تازہ نغمے دلوں میں حرارت پیدا کرتے ہیں۔
A Faith renowned in hill and dale; which kindles in men's hearts a flame of undying song:
ذرہ 
کشت 
و 
فتاب 
انبار 
کرد 
خرمن 
از 
صد 
رومی 
و 
عطار 
کرد 
وہ ملت جس نے ذرّہ بویا اور آفتابوں کے انبار لگا دیئے؛ جس کے کھلیان سینکڑوں رومی اور عطّار ہیں۔
It sowed an atom and reaped a sun; it harvested a hundred poets like Rumi and Attar.
آہ 
گرمم 
، 
رخت 
بر 
گردون 
کشم 
گرچہ 
دودم 
از 
تبار 
آتشم 
میں آگ گرم ہوں جو آسمان تک پہنچتی ہے؛ اگرچہ میں (آہ) کا دھواں ہوں لیکن ہوں تو آگ کے خاندان سے۔
I am a sigh: I will mount to the heavens; I am but smoke, yet am I sprung of fire.
خامہ 
ام 
از 
ھمت 
فکر 
بلند 
راز 
این 
نہ 
پردہ 
در 
صحرا 
فکند 
میرے قلم نے فکربلند کی ہمت سے؛ اس نہہ پردہ (کائنات) کے راز کو صحرا میں ڈال دیا (سر عام واضح کر دیا)۔
Driven onward by high thoughts, my pen; cast abroad the secret behind this veil.
قطرہ 
تا 
ہمپایہ 
ی 
دریا 
شود 
ذرہ 
از 
بالیدگی 
صحرا 
شود 
تا کہ قطرہ دریا کے ہم پلّہ ہو جائے اور ذرّہ بڑھ کر صحرا بن جائے۔
That the drop may become co-equal with the sea; and the grain of sand grow into a Sahara.
شاعری 
زین 
مثنوی 
مقصود 
نیست 
بت 
پرستی، 
بت 
گری 
مقصود 
نیست 
اس مثنوی کا مقصد شاعری (بت بنانا اور بت پرستی سکھانا) نہیں۔
Poetising is not the aim of this mathnavi. Beauty-worshipping and love-making is not its aim.
ہندیم 
از 
پارسے 
بیگانہ 
ام 
ماہ 
نو 
باشم 
تہی 
پیمانہ 
ام 
میں ہندی ہوں فارسی میری زبان نہیں؛ میں نئے چاند کی مانند اندر سے خالی ہوں۔
I am of India: Persian is not my native tongue; I am like the crescent moon: my cup is not full.
حسن 
انداز 
بیان 
از 
من 
مجو 
خوانسار 
و 
اصفہان 
از 
من 
مجو 
مجھ سے انداز بیاں کی خوبصورتی کی توقع نہ رکھ؛ میں شعراء خوانسار اور اصفہان جیسی زبان پیش نہیں کر سکتا۔
Do not seek from me charm of style in exposition. Do not seek from me Khansar and Isfahan.
گرچہ 
ہندی 
در 
عذوبت 
شکر 
است 
طرز 
گفتار 
دری 
شیرین 
تر 
است 
اگرچہ ہندی زبان مٹھاس میں شکر ہے؛ لیکن فارسی زبان کا انداز بیان اس سے زیادہ شیریں ہے۔
Although the language of Hind is sweet as sugar; yet sweeter is the fashion of Persian speech.
فکر 
من 
از 
جلوہ 
اش 
مسحور 
گشت 
خامۂ 
من 
شاخ 
نخل 
طور 
گشت 
فارسی زبان کے جلوے نے میرے فکر کو مشہور کر دیا؛ اور میرا کلام (اس کی بدولت) نخل طور کی شاخ بن گیا۔
My mind was enchanted by its loveliness; my pen became as a twig of the Burning Bush.
پارسے 
از 
رفعت 
اندیشہ 
ام 
در 
خورد 
با 
فطرت 
اندیشہ 
ام 
میرے فکر کی بلندی کے لحاظ سے فارسی زبان اس کی فطرت سے زیادہ مناسبت رکھتی ہے۔
Because of the loftiness of my thoughts; Persian alone is suitable to them.
خردہ 
بر 
مینا 
مگیر 
اے 
ہوشمند 
دل 
بذوق 
خردہ 
ی 
مینا 
بہ 
بند 
خردہ مینا: شراب۔ خردہ گرفتن: نکتہ چینی کرنا۔ اے دانا شخص! میری مینائے کلام (الفاظ) پر نکتہ چینی نہ کر بلکہ اس مینا کی شراب (معنی) سے لطف اندوز ہونے کا ذوق پیدا کر۔
O Reader, do not find fault with the wine-cup; but consider attentively the taste of the wine.
English Translation by: Reynold A. Nicholson
اسرارِ خودی
در بیان اینکہ اصل نظام عالم