اسرارِ خودی
در بیان اینکہ چون خودی
در بیان اینکہ چون خودی از عشق و محبت محکم میگردد، قوای ظاہرہ و مخفیہ نظام عالم را مسخر می سازد
اس بیان میں کہ جب خودی عشق و محبت سے مستحکم ہو جاتی ہے تو وہ نظام عالم کی ظاہری اور مخفی قوّتوں کو مسخر کر لیتی ہے۔
The Self Is Strengthened By Love It Gains Dominion Over The Outward And Inward Forces Of The Universe
از 
محبت 
چون 
خودی 
محکم 
شود 
قوتش 
فرماندہ 
عالم 
شود 
جب خودی عشق الہی سے مستحکم ہو جاتی ہے؛ تو اس کی قوّت زمانے کی فرمانروا بن جاتی ہے۔
When the self is made strong by Love; its power rules the whole world.
پیر 
گردون 
کز 
کواکب 
نقش 
بست 
غنچہ 
ہا 
از 
شاخسار 
او 
شکست 
بوڑھا آسمان جس نے ستاروں سے آرائش کی ہے، اس کی شاخوں کے غنچے (ستارے) ٹوٹ گرتے ہیں۔ (عام طور سے خیال کیا جاتا ہے کہ انسانوں کی قسمت ستاروں کی گردش سے وابستہ ہے۔ اقبال فرماتے ہیں کہ جو شخص اپنی خودی مستحکم کر لیتا ہے وہ خود تقدیر کا فرمانروا ہو جاتا ہے اور ستارے اس کے سامنے بے معنی ہیں۔
The Heavenly Sage who adorned the sky with stars; plucked these buds from the bough of the self.
پنجہ 
ی 
او 
پنجہ 
ے 
حق 
می 
شود 
ماہ 
از 
انگشت 
او 
شق 
می 
شود 
اس کا ہاتھ اللہ تعالے کا ہاتھ ہو جاتا ہے، اس (صلعم) کی انگلی کےاشارے سے چاند دو ٹکڑے ہو جاتا ہے۔
Its hand becomes God's hand, the moon is split by its fingers.
در 
خصومات 
جہان 
گردد 
حکم 
تابع 
فرمان 
او 
دارا 
و 
جم 
ایسا شخص دنیا کے معاملات کے فیصلے کرتا ہے؛ دارا و جم جیسے پادشاہ بھی اس کے حکم سے تابع فرمان ہوتے ہیں ۔
It is the arbitrator in all the quarrels of the world; its command is obeyed by Darius and Jamshid.
با 
تو 
می 
گویم 
حدیث 
بوعلی 
در 
سواد 
ہند 
نام 
او 
جلے 
میں تمہیں بو علی قلندر (رحمتہ اللہ) کا واقعہ سناتا ہوں؛ اطراف ہند میں ان کا نام مشہور ہے۔
I will tell thee a story of Bu Ali, whose name is renowned in India.
آن 
نوا 
پیرای 
گلزار 
کہن 
گفت 
با 
ما 
از 
گل 
رعنا 
سخن 
'باغ کہن ' کے اس ترانے سنانے والے نے ہم سے 'گل رعنا' کی بات کہی ہے۔
Him who sang of the ancient rose-garden and discoursed to us about the lovely rose:
خطہ 
ی 
این 
جنت 
آتش 
نژاد 
از 
ہوای 
دامنش 
مینو 
سواد 
(جنت کا یہ خطہ) جو بت پرستی کے باعث آتش نہاد بنا ہوا تھا ؛ اس کے دامن کی ہوا سے واقعی بہشت کا ٹکڑا بن گیا تھا۔
The air of his fluttering skirt; made a Paradise of this fire-born country.
کوچک 
ابدالش 
سوی 
بازار 
رفت 
از 
شراب 
بوعلی 
سرشار 
رفت 
ان کا مرید بازار کی طرف گیا ، وہ حضرت بو علی کی شراب (معرفت) سے سرمست تھا۔
His young disciple went one day to the bazaar – The wine of Bu Ali's discourse had turned his head.
عامل 
آن 
شھر 
می 
آمد 
سوار 
ہمرکاب 
او 
غلام 
و 
چوبدار 
اس شہر کے حاکم کی سواری بھی ادھر سے گزری؛ حاکم کے ساتھ کئی غلام اور چوبدار تھے۔
The governor of the city was coming along on horseback; his servant and staff-bearer rode beside him.
پیشرو 
زد 
بانگ 
اے 
ناہوشمند 
بر 
جلو 
داران 
عامل 
رہ 
مبند 
ان میں سے ایک نے آواز دی کہ اے بے سمجھ! حاکم کے ہمراہیوں کا راستہ نہ روک۔
The forerunner shouted, ‘O senseless one! Do not get in the way of the governor's escort!’
رفت 
آن 
درویش 
سر 
افکندہ 
پیش 
غوطہ 
زن 
اندر 
یم 
افکار 
خویش 
مگر وہ درویش سر جھکائے اپنے افکار میں مست اسی طرح چلتا رہا۔
But the dervish walked on with drooping head, sunk in the sea of his own thoughts.
چوبدار 
از 
جام 
استکبار 
مست 
بر 
سر 
درویش 
چوب 
خود 
شکست 
دوسری طرف سے چوبدار اپنے تکبر میں مست تھا ؛ اس نے درویش کے سر پر لاٹھی دے ماری۔
The staff-bearer, drunken with pride, broke his staff on the head of the dervish;
از 
رہ 
عامل 
فقیر 
آزردہ 
رفت 
دلگران 
و 
ناخوش 
و 
افسردہ 
رفت 
فقیر حکمران کے ہاتھوں آزردہ خاطر ، رنجیدہ ، ناخوش اور افسردہ گیا۔
Who stepped painfully out of the governor's way. Sad and sorry, with a heavy heart.
در 
حضور 
بوعلے 
فریاد 
کرد 
اشک 
از 
زندان 
چشم 
آزاد 
کرد 
اس نے حضرت بو علی کے سامنے فریاد کی اور آنکھوں سے آنسو بہائے۔
He came to Bu Ali and complained and released the tears from his eyes.
صورت 
برقی 
کہ 
بر 
کہسار 
ریخت 
شیخ 
سیل 
آتش 
از 
گفتار 
ریخت 
اس کی فریاد سن کر شیخ پہاڑ پر گرنے والی بجلی کی مانند اپنی گفتگو سے شعلہ بار ہوئے۔
Like lightning that falls on mountains, the Shaykh poured forth a fiery torrent of speech.
از 
رگ 
جاں 
آتش 
دیگر 
گشود 
با 
دبیر 
خویش 
ارشادی 
نمود 
ساتھ ہی اس کے اندر سے ایک اور طرح کی آگ نے سر اٹھایا؛ اپنے منشی کو بلا کر فرمایا۔
He let loose from his soul a strange fire; he gave an order to his secretary:
خامہ 
را 
بر 
گیر 
و 
فرمانی 
نویس 
از 
فقیری 
سوی 
سلطانی 
نویس 
قلم اٹھا اور فقیر سے پادشاہ کی طرف فرمان لکھ۔
Take thy pen and write a letter from a dervish to a sultan!
بندہ 
ام 
را 
عاملت 
بر 
سر 
زدہ 
است 
بر 
متاع 
جان 
خود 
اخگر 
زدہ 
است 
میرے درویش کو تیرے عامل نے سر پر لاٹھی ماری ہے؛ گویا اس نے ایسا کام کیا ہے جو اس کی متاع جان کو جلا دے گا۔
Say, 'Thy governor has broken my servant's head; he has cast burning coals on his own life.
باز 
گیر 
این 
عامل 
بد 
گوھری 
ورنہ 
بخشم 
ملک 
تو 
با 
دیگری 
اس بد نہاد عامل کو یہاں سے واپس بلا؛ ورنہ میں پیری بادشاہت کسی اور کو دے دوں گا۔
Arrest this wicked governor, or else I will bestow thy kingdom on another.
نامہ 
ی 
آن 
بندہ 
ی 
حق 
دستگاہ 
لرزہ 
ہا 
انداخت 
در 
اندام 
شاہ 
اس خدا رسیدہ بندے کے مکتوب نے بادشاہ کے بدن پر کپکپی طاری کر دی۔
The letter of the saint who had access to God; caused the monarch to tremble in every limb.
پیکرش 
سرمایہ 
ی 
آلام 
گشت 
زرد 
مثل 
آفتاب 
شام 
گشت 
اس کے رگ و پے میں رنج و غم کا طوفان امڈ آیا؛ اور اس کا چہرہ آفتاب شام کی طرح زرد پڑ گیا۔
His body was filled with aches, he grew as pale as the evening sun.
بہر 
عامل 
حلقہ 
ی 
زنجیر 
جست 
از 
قلندر 
عفو 
این 
تقصیر 
جست 
اس نے حاکم کی گرفتاری کا حکم جاری کیا اور قلندر سے اپنی غلطی کی معافی کا خواستگار ہوا۔
He sought out a handcuff for the governor and entreated Bu Ali to pardon this offence.
خسرو 
شیرین 
زبان، 
رنگین 
بیان 
نغمہ 
ہایش 
از 
ضمیر"کن 
فکان" 
امیر خسرو جو شیریں زبان اور رنگین بیان تھے؛ جن کے نغمے گویا ضمیر کائنات کے اندر سے پھوٹتے تھے۔
Khusrau, the sweet-voiced eloquent poet, whose harmonies flow from the mind;
فطرتش 
روشن 
مثال 
ماہتاب 
گشت 
از 
بہر 
سفارت 
انتخاب 
جن کی فطرت چاندنی کی مانند روشن تھی ، انہیں اپنا سفیر بنا کر بھیجا۔
And whose genius hath the soft brilliance of moonlight; was chosen to be the king’s ambassador.
چنگ 
را 
پیش 
قلندر 
چون 
نواخت 
از 
نوائی 
شیشہ 
ی 
جانش 
گداخت 
جب امیرخسرو نے قلندر کے سامنے ساز سے نغمہ گایا ؛ تو ان کی آواز نے درویش کے شیشہء جاں کو پگھلا دیا۔
When he entered Bu Ali’s presence and played his lute, kis song melted the faqir’s soul like glass.
شوکتی 
کو 
پختہ 
چون 
کہسار 
بود 
قیمت 
یک 
نغمہ 
ی 
گفتار 
بود 
وہ سطوت جو پہاڑ کی مانند مستحکم تھی؛ ایک نغمہ نے اسے خرید لیا۔
One strain of Poesy bought the grace of a kingdom that was firm as a mountain.
نیشتر 
بر 
قلب 
درویشان 
مزن 
خویش 
را 
در 
آتش 
سوزان 
مزن 
درویشوں کے دل کو زخمی نہ کر؛ ایسا کرنا اپنے آپ کو جلتی ہوئی آگ میں ڈالنا ہے۔
Do not wound the heart of dervishes; do not throw thyself into burning fire!
English Translation by: Reynold A. Nicholson
اسرارِ خودی
حکایت درین معنی