(جناب رسول پّاک (صلعم) کے بوجود مبارک کی صورت میں یہ مضمون موزوں ہے)
شور برپا کرنے والا عشق شہر سے بے پرواہ ہے؛ شہر کے شور و غل میں اس کا شعلہ بجھ جاتا ہے۔
Tumulutous love, indifferent to the city; for in the city’s clangour its flame dies.
عاشق لوگ اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کر دیتے اور تاویل کرنے والی عقل کی قربانی دے دیتے ہیں۔(عشق فرمودہء قاصد سے سبک گام عمل؛ عقل سمجھی ہی نہیں معنیء پیغام ابھی۔)
Lovers yield themselves up to God, give interpretative reason as an offering.
'آدمی فقط نگاہ ہے، باقی بدن نرا چھلکا ہے؛ اور نگاہ وہ ہے جو دوست (حق تعالے) کا دیدار کرے۔
اپنے سارے بدن کو پگھلا کر نگاہ بنا لے؛ نگاہ حاصل کر، نگاہ حاصل کر'۔رومی
(لوں لوں وچ ہون صد صد چشماں - حضرت سلطان باہو)
‘Man is but sight, the rest is mere skin; true sight signifies seeing the Beloved.
Dissolve the whole body into sight – go to gazing, go to gazing, go to gaze!’
چونکہ نگاہ جلوہ کے سبب عاجز و درماندہ ہے (جلوے کی تاب نہیں لا سکتی) اس لیے اس نے ماضی و حال کا اختلاف پیدا کر لیا ہے۔( نگاہ جلوہ بدمست از صفائے جلوہ می لغزد ؛ تو می گوئی نقاب است ایں، حجاب است ایں، مجاز است ایں – اقبال)
Since first the gaze advanced on manifestation the alternation of yesterday and tomorrow was born.