Translation Settings
جاوید نامہ · آن سوی افلاک
در حضور شاہ ہمدان
شاہ ہمدان کے حضور
In The Presence Of Shah-I Hamadan
زندہ رود
Zinda-Rud
01
از تو خواھم سر یزدان را کلید
طاعت از ما جست و شیطان آفرید
میں آپ سے ذات باری تعالے کے اس راز کی کلید چاہتا ہوں کہ خود شیطان پیدا کیا اور ہم سے اطاعت چاہی۔
I seek from you the key to the secret of God: He sought from us obedience, and created Satan.
03
زشت و ناخوش را چنان آراستن
در عمل از ما نکوئی خواستن
ایک طرف گناہ اور برائی کو دل فریب بنایا دوسری طرف ہم سے نیکی چاہی۔
So to adorn the hideous and unlovely and to demand of us comeliness of works;
05
از تو پرسم این فسون سازی کہ چہ
با قمار بدنشین بازی کہ چہ
میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ یہ فسون سازی کیا ہے؛ بد نہاد ساتھی کے ساتھ جواء کھیلنے کا کیا مطلب!
I ask you, what is this magic-mongering, what this dicing with an evil adversary?
07
مشت خاک و این سپہر گرد گرد
خود بگو می زیبدش کاری کہ کرد
مشت خاک (انسان ) اور یہ چرخ گرداں ؛ آپ ہی کہیں کہ کیا کام اللہ تعالے کو زیب دیتا ہے۔
A handful of dust, against yon revolving sphere – tell me now, did it beseem Him so to do?
09
کار ما، افکار ما، آزار ما
دست با دندان گزیدن کار ما
ہمارے اعمال اور ہمارے افکار ہمارے لیے باعث آزار ہیں؛ ہمارا کام صرف دانتوں سے اپنا ہاتھ کاٹنا (اظہار حیرت و ملامت) ہے۔
Our labour, our thoughts, our anguish is but to bite our hands in despair.
شاہ ہمدان
Shah-i Hamadan
11
بندہ ئی کز خویشتن دارد خبر
آفریند منفعت را از ضرر
وہ بندہ جو اپنی قوّتوں کا احساس رکھتا ہے؛ وہ نقصان سے بھی نفع حاصل کر لیتا ہے۔
The man who is fully aware of himself creates advantage out of loss.
13
بزم با دیو است آدم را وبال
رزم با دیو است آدم را جمال
شیطان کے ساتھ دوستی آدم کے لیے عذاب ہے؛ مگر شیطان سے مقابلہ کرنے میں آدم کا حسن نکھرتا ہے۔
To sup with the Devil brings disaster to a man; to wrestle with the Devil brings him glory.
15
خویش را بر اہرمن باید زدن
تو ہمہ تیغ آن ہمہ سنگ فسن
اپنے آپ کو شیطان کے مقابل لانا چاہئیے ؛ تو سراپا تیغ ہے اور وہ سان (جس سے تلوار تیز کی جاتی ہے)۔
One must strike oneself against Ahriman; you are a sword, he is the whetstone;
17
تیز تر شو تا فتد ضرب تو سخت
ورنہ باشی در دو گیتی تیرہ بخت
تو اپنی تلوار کو اور تیز کر تاکہ تیرا وار سخت پڑے ، ورنہ تو دونوں جہانوں میں سیاہ بخت رہے گا۔
Become sharper, that your stroke may be hard, else you will be unfortunate in both worlds.
زندہ رود
Zinda-Rud
19
زیر گردون آدم آدم را خورد
ملتے بر ملتے دیگر چرد
آسمان کے نیچے آدمی آدمی کو کھا رہا ہے؛ قومیں قوموں کو لوٹ رہی ہیں۔
Under the heavens man devours man, nation grazes upon another nation.
21
جان ز اہل خطہ سوزد چون سپند
خیزد از دل نالہ ہای دردمند
اہل کشمیر کے حالات دیکھ کر میری جان سپند (حرمل) کی طرح تڑپتی ہے اور میرے دل سے درد بھرے نالے اٹھتے ہیں۔
My soul burns like rue for the people of the Vale; cries of anguish mount from my heart.
23
زیرک و دراک و خوش گل ملتی است
در جہان تر دستی او آیتی است
یہ قوم زیرک اور تیز ہے، خوش شکل ہے؛ ان کی ہنرمندی دنیا کے لیے مثال ہے۔
They are a nation clever, perceptive, handsome, their dexterity is proverbial,
25
ساغرش غلطندہ اندر خون اوست
در نے من نالہ از مضمون اوست
مگر اس کا ساغر اس کے اپنے ہی خون میں ڈوبا ہوا ہے؛ میری نے سے اسی کے احوال کی فریاد نکل رہی ہے۔
Yet their cup rolls in their own blood; the lament in my flute is on their behalf.
27
از خودی تا بے نصیب افتادہ است
در دیار خود غریب افتادہ است
چونکہ خودی سے بے نصیب ہے اس لیے اپنے ہی ملک کے اندر اجنبی ہے۔
Since they have lost their share of selfhood they have become strangers in their own land;
29
دستمزد او بدست دیگران
ماہی رودش بہ شست دیکران
اس کا مزدوری کرنے والا ہاتھ دوسروں کے ہاتھ میں ہے، اس کی ندی کی مچھلی دوسروں کے کانٹے میں گرفتار ہے۔
Their wages are in the hands of others, the fish of their river in other men’s nets.
31
کاروانہا سوی منزل گام گام
کار او نا خوب و بے اندام و خام
دوسری قوموں کے قافلے قدم بقدم منزل کی جانب بڑھ رہے ہیں مگر اہل کشمیر کے معملات نا خوب، خام اور ان گھڑت ہیں۔
The caravans move step by step to the goal; but still their work is ill-done, unformed, immature.
33
از غلامی جذبہ ہای او بمرد
آتشے اندر رگ تاکش فسرد
غلامی سے اس کے جذبات مر چکے ہیں، اور اس کے انگور کی رگ میں آتش حیات افسردہ ہو چکی ہے۔
Through servitude their aspirations have died, the fire in the veins of their vine is quenched.
35
تا نپنداری کہ بود است اینچین
جبہہ را ہموارہ سود است اینچنین
یہ نہ سمجھ کہ یہ ہمیشہ سے اسی طرح ناصیہ فرسائی کرتا رہا ہے۔
But do not think that they were always so, their brows ever lowered thus to the dust;
37
در زمانی صف شکن ہم بودہ است
چیرہ و جانباز و پر دم بودہ است
کسی زمانے میں یہ لوگ صف شکن ، جنگجو ، جانباز اور حوصلہ مند رہے ہیں۔
Once upon a time they too were warlike folk, valiant, heroic, ardent in battle.
39
کوہہای خنگ سار او نگر
آتشین دست چنار او نگر
کشمیر کے برف پوش پہاڑ اور آتشیں دست چنار کو دیکھ۔
Behold her mountains turbaned in white; behold the fiery hands of her chenars;
41
در بہاران لعل میریزد ز سنگ
خیزد از خاکش یکی طوفان رنگ
یہ خطہ موسم بہار میں پتھروں سے لعل رنگ پھول اگاتا ہے اور اس کی خاک سے ایک طوفان رنگ اٹھتا ہے۔
In springtime rubies leap down from the rocks, a flood of colour rises from her soil;
43
لکہ ھای ابر در کوہ و دمن
پنبہ پران از کمان پنبہ زن
اس کے پتھروں اور وادیوں میں بادل کے ٹکڑے اس طرح پھرتے ہیں جیسے دھنیے کی کمان سے دھنی ہوئی روئی۔
Stippled clouds cover mountain and valley like cotton-flocks strewn from a carder’s bow.
45
کوہ و دریا و غروب آفتاب
من خدارا دیدم آنجا بے حجاب
وہاں کے پہاڑ ، دریا اور غروب آفتاب کا منظر اتنا خوبصورت ہے کہ وہاں اللہ تعالے کا جمال بے نقاب نظر آتا ہے۔
Mountain and river, and the setting of the sun: there I behold God without a veil
47
با نسیم آوارہ بودم در نشاط
"بشنو از نے" می سرودم در نشاط
میں وہاں کے نشاط باغ میں آوارہ پھرتا ہوا خوشی سے مثنوی مولانا روم کے اشعار گا رہا تھا۔
I wandered with the zephyr in Nishat chanting as I roved, ‘Listen to the reed’
49
مرغکی می گفت اندر شاخسار
با پشیزی می نیرزد این بہار
شاخوں میں بیٹھے ہوئے ایک پرندے نے مجھ سے کہا ، یہ بہار دمڑی کی بھی قیمت نہیں رکھتی۔
A bird perched in the branches was singing: ‘This springtide is not worth a penny.
51
لالہ رست و نرگس شہلا دمید
باد نو روزی گریبانش درید
باد بہار نے اس سرزمین کا گریبان پھاڑ دیا ہے ، گل لالہ نے سر نکالا ہے اور سیاہ چشم نرگس پوچھتی ہے۔
The tulip has blossomed, the dark-eyed narcissus is in bloom, the breeze of Nauruz has torn their skirts;
53
عمرھا بالید ازین کوہ و کمر
نستر از نور قمر پاکیزہ تر
یہاں کے پرندوں اور وادیوں کے اندر سے چنبیلی کے پھول جو چاندنی سے پاکیزہ تر ہیں سالہا سال سے کھل رہے ہیں۔
For many ages from this mountain and valley have sprung daisies purer than the light of the moon,
55
عمر ہا گل رخت بر بست و گشاد
خاک ما دیگر شہاب الدین نزاد
پھولوں کو کھلتے اور مرجھاتے عمریں گذر گئیں ، لیکن ہماری خاک سے کوئی اور شہاب الدین پیدا نہ ہوا۔
For many ages the rose has packed and unpacked her baggage, yet our earth has not begotten a second Shihab al-Din.’
57
نالۂ پر سوز آن مرغ سحر
داد جانم را تب و تاب دگر
اس مرغ سحر کے نالہء پرسوز نے میری جان میں نئی تڑپ اور نیا جوش پیدا کر دیا۔
The passionate lament of that bird of dawn filled my heart with new fire and fever.
59
تا یکی دیوانہ دیدم در خروش
آنکہ برد از من متاع صبر و ہوش
وہاں میں نے ایک دیوانے کو یہ اشعار پڑھتے دیکھا، اس کی آواز نے میرے صبر و ہوش کی متاع غارت کر دی۔
Presently I beheld a madman, whose threnody robbed me of all endurance and reason.
61
"بگذر ز ما و نالۂ مستانہ ئی مجوی
بگذر ز شاخ گل کہ طلسمی است رنگ و بوے
ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دے ہم سے نالہء مستانہ کی خواہش نہ رکھ، شاخ گل کی بات چھوڑ یہ رنگ و بو محض طلسم ہے۔
‘Pass us by, and seek not an impassioned lament, pass from the rose-twig, that talisman of colour and scent.
63
گفتی کہ شبنم از ورق لالہ می چکد
غافلی دلی است اینکہ بگرید کنار جوی
تو کہتا ہے کہ شبنم گل لالہ کی پتّی سے ٹپکی ہے، غافل یہ تو دل ہے جو ندی کے کنارے بیٹھا رو رہا ہے۔
You said that dew was dripping from the tulip’s petals; nay, it is a feckless heart weeping beside the river.
65
این مشت پر کجا و سرود اینچنین کجا
روح غنی است ماتمی مرگ آرزوی
یہ مشت پر کہاں اور اس قسم کا گیت کہاں ؛ یہ تو غنی کی روح ہے جو مرگ آرزو کا ماتم کر رہی ہے۔
What have these few feathers to do with such a chant? It is the spirit of Ghani mourning the death of desire.
67
باد صبا اگر بہ جنیوا گذر کنی،
حرفی ز ما بہ مجلس اقوام باز گوی
باد صبا اگر جنیوا کی طرف تیرا گذر ہو ؛ تو مجلس اقوام تک ہماری یہ بات پہنچا دینا۔
Zephyr, if you should pass over Geneva speak a word from me to the League of Nations:
69
دہقان و کشت و جوی و خیابان فروختند
قومی فروختند و چہ ارزان فروختند"
دہقان، اس کی کھیتی، ندیاں، پھولوں کی کیاریاں سب کو فروخت کر دیا؛ ساری قوم کو فروخت کر دیا اور کس قدر ارزاں فروخت کر دیا۔
They have sold farmer and cornfield, river and garden, they have sold a people, and at a price how cheap.’
شاہ ہمدان
Shah-i Hamadan
71
با تو گویم رمز باریک اے پسر
تن ہمہ خاک است و جان والا گہر
بیٹے میں تجھے ایک باریک نکتہ بتاتا ہوں ؛ بدن محض خاک ہے اور جان قیمتی چیز ہے۔
I will tell you a subtle mystery, my son: the body is all clay, the soul a precious pearl.
73
جسم را از بہر جان باید گداخت
پاک را از خاک می باید شناخت
جسم کو جان کی خاطر فروخت (قربان) کیا جا سکتا ہے؛ پاک (روح) اور خاک (بدن) میں امتیاز کرنا چاہیئے۔
The body must be melted for the sake of the soul; the pure must be distinguished from the clay.
75
گر ببری پارۂ تن را ز تن
رفت از دست تو آن لخت بدن
اگر تو بدن سے اس کا ٹکڑا الگ کر دے؛ تو بدن کا وہ ٹکڑا ہمیشہ کے لیے ضائع ہو جاتا ہے۔
If you cut off a part of the body from the body, that slice of the body will be lost to you;
77
لیکن آن جانی کہ گردد جلوہ مست
گر ز دست او را دہی آید بدست
لیکن وہ جان جو جلوہء جمال حق سے مست ہو جائے؛ اگر تو اسے ہاتھ سے دے دے تو وہ تیرے ہاتھ آ جاتی ہے (شہید زندہ ہیں)۔
But the soul which is drunk with vision – if you give it away, it will return to you.
79
جوہرش با ہیچ شی مانند نیست
ہست اندر بند و اندر بند نیست
جان کے جوہر کی کوئی مثال نہیں؛ وہ (بدن کی) قید میں ہوتے ہوئے بھی آزاد ہے۔
The soul’s substance resembles nothing else; it is in bonds, and yet not in bonds;
81
گر نگھداری بمیرد در بدن
ور بیفشانے، فروغ انجمن
اگر تو جان کو بچا بچا کر رکھے تو یہ بدن میں مر جاتی ہے؛ اگر تو اسے (حق پر) شمار کرتا ہے تو پھر یہ انجمن کا نور ہے۔
If you watch over it, it dies in the body, and if you scatter it, it illuminates the gathering.
83
چیست جان جلوہ مست اے مرد راد
چیست جان دادن ز دست ایمرد راد
اے جوانمرد جان جلوہ مست کیا ہے؟ اور ہاتھ سے جان دے دینے کے کیا معنی ہیں؟
What, noble sir, is the soul ‘drunk with vision’? What does it mean to ‘give the soul away’?
85
چیست جان دادن بحق پرداختن
کوہ را با سوز جان بگداختن
جان دینا حق کے لیے جان کی بازی لگا دینا اور پہاڑ کو اس کے سوز سے پگھلا دینا ہے۔
To give away the soul is to surrender it to God, it means melting the mountain with the soul’s flame.
87
جلوہ مستی خویش را دریافتن
در شبان چون کوکبی بر تافتن
جلوہ مستی؟ اپنے آپ کو پا لینا اور دنیا کی شب تاریک میں ستارے کی مانند چمکنا ہے۔
‘Drunk with vision’ means discovering one’s self, shining like a star in the night-season:
89
خویش را نایافتن نابودن است
یافتن خود را بخود بخشودن است
اپنے آپ کو نہ پانا ، معدوم ہونا ہے؛ اپنے آپ کو پا لینا ، خود کو زندگی عطا کرنا ہے۔
Not to discover one’s self is not to exist, to discover is to bestow the self on the Self.
91
ہر کہ خود را دید و غیر از خود ندید
رخت از زندان خود بیرون کشید
جس نے اپنے آپ کو دیکھا اور اپنے سوائے اور کسی کو نہ دیکھا ، وہ اپنے قید خانے سے باہر نکل آیا۔
Whosoever has seen himself and has seen naught else has drawn forth the load from the self’s prison;
93
جلوہ بد مستی کہ بیند خویش را
خوشتر از نوشینہ و داند نیش را
وہ جلوہ مست جو اپنے آپ کو دیکھ لیتا ہے (اپنی صلاحیتوں سے آگاہ ہو جاتا ہے) وہ (مشکلات کے) نیش کو (آسودگی کے) شہد سے خوشتر سمجھتا ہے۔
The ‘drunk with vision’ who beholds himself deems the sting sweeter than the honey;
95
در نگاہش جان چو باد ارزان شود
پیش او زندان او لرزان شود
(وہ جان کو نایاب نہیں سمجھتا بلکہ) ہوا کی طرح ارزاں سمجھتا ہے ، اس کے سامنے اس کے گرد بنایا ہوا حصار ٹوٹ جاتا ہے۔
In his eyes the soul is cheap as the air, before him the walls of his prison tremble;
97
تیشۂ او خارہ را بر مے درد
تا نصیب خود ز گیتی می برد
اس کا تیشہ پتھر کو توڑ دیتا ہے یہاں تک کہ وہ زمانے سے اپنا حصّہ لے لیتا ہے۔
His axe shivers the granite rock so that he takes his share of the universe.
99
تا ز جان بگذشت جانش جان اوست
ورنہ جانش یکدو دم مہمان اوست
جب وہ جان سے گذر جاتا ہے تو جان (ہمیشہ کے لیے) اس کی جان بن جاتی ہے ورنہ یہ جان تو ایک دو دم کی مہمان ہے۔
When he gives up the soul, his soul is truly his, otherwise his soul is his guest but for a moment or two.
زندہ رود
Zinda-Rud
101
گفتہ ئی از حکمت زشت و نکوی
پیر دانا نکتۂ دیگر بگوی
آپ نے نیکی اور بدی کی حکمت بیان کر دی ہے؛ اے پیر دانا، اب ایک اور نکتہ سمجھائیے۔
You have spoken of the wisdom of foul and fair; learned sage, expound a further subtlety.
103
مرشد معنی نگاہان بودہ ئی
محرم اسرار شاہان بودہ ئی
آپ معنی پر نگاہ رکھنے والوں کے مرشد اور بادشاہوں کے رموز کے محرم تھے۔
You were the guide of those who behold the inner meanings you were the confidant of the secrets of kings.
105
ما فقیر و حکمران خواہد خراج
چیست اصل اعتبار تخت و تاج
ہم محتاج ہیں اور حکمران ہم سے خراج مانگتا ہے؛ تخت و تاج کی حیثیت کیا ہے؟
We are poor men, and the ruler demands tribute; what is the origin of the sanction of throne and crown?
شاہ ہمدان
Shah-i Hamadan
107
اصل شاہی چیست اندر شرق و غرب
یا رضای امتان یا حرب و ضرب
مشرق و مغرب میں پادشاہت کی حقیقت کیا ہے؟ یا قوموں کی مرضی یا جنگ و جدل۔
What is the origin of Kingship in East and West? Either the consent of the peoples, or war and violence.
109
فاش گویم با تو اے والا مقام
باج را جز با دو کس دادن حرام
اے والا مقام! میں تجھے صاف صاف بتاتا ہوں، دو اشخاص کے علاوہ کسی کو خراج ادا کرنا حرام ہے۔
Exalted sir, I will speak with you plainly; it is forbidden to pay tribute save to two persons:
111
یا "اولی الامری" کہ "منکم" شأن اوست
آیۂ حق حجت و برہان اوست
یا وہ اولی الامر جو منکم کے تحت آئے؛ قرآن پاک کی آیت اس کے حق میں دلیل ہے۔
‘Either those in authority as being among you, whose proof and demonstration is the verse of God,
113
یا جوانمردی چو صرصر تند خیز
شہر گیر و خویش باز اندر ستیز
یا خراج کا حقدار وہ جوانمرد ہے جو باد صرصر کی طرح تند و تیز شہر گیر اور معرکہء حق و باطل میں اپنی جان کی بازی لگا دینے والا۔
Or else a hero swift-rising like a hurricane who seizes cities, and stakes himself in the battle,
115
روز کین کشور گشا از قاہری
روز صلح از شیوہ ہای دلبری
جو میدان جنگ میں قوّت سے فتح حاصل کرنے والا ہو اور امن میں انداز دلبری رکھتا ہو۔
On the day of war conquering the land by force of arms, on the day of peace by the winning ways of love.
117
می توان ایران و ہندوستان خرید
پادشاہی را ز کس نتوان خرید
ایران و ہندوستان کو خریدا جا سکتا ہے مگر پادشاہی کو کسی سے خریدا نہیں جا سکتا۔(پادشاہی قوّت بازو ہی سے حاصل کی جا سکتی ہے۔)
You might indeed purchase Iran and India, but kingship cannot be bought from any man;
119
جام جم را اے جوان باہنر
کس نگیرد از دکان شیشہ گر
اے ہنرمند جوان! کبھی کسی نے جام جم کو شیشہ گر کی دکان سے نہیں خریدا۔
Virtuous friend, the Cup of Jamshid none shall procure from the glassmaker’s shop,
121
ور بگیرد مال او جز شیشہ نیست
شیشہ را غیر از شکستن پیشہ نیست
اور اگر کوئی وہان سے خریدتا ہے تو اس کا مال محض شیشہ ہے؛ ٹوٹ جانے والی چیز ہے۔
Or if he procures aught, all he owns is glass, and glass has no other property but to break.
غنی
Ghani
123
ہند را این ذوق آزادی کہ داد
صید را سودای صیادی کہ داد
ہند کو یہ ذوق آزادی کس نے دیا ہے؟ شکار کو شکاری کا جنون کس نے عطا کیا ہے؟
Who gave to India this yearning for freedom? Who gave the quarry this passion to be the hunter?
125
آن برہمن زادگان زندہ دل
لالۂ احمر ز روی شان خجل
یہ زندہ دل برہمن زادے ہی تو ہیں، جن کے چہروں کی سرخی گل لالہ کو شرمسار کرتی ہے۔
Those scions of Brahmins, with vibrant hearts, whose glowing cheeks put the red tulip to shame;
127
تیزبین و پختہ کار و سخت کوش
از نگاہشان فرنگ اندر خروش
یہ تیز بین ، پختہ کار اور سخت کوش ہیں؛ ان کی نگاہ سے انگریز فریادی ہیں۔
Keen of eye, mature and strenuous in action whose very glance puts Europe into commotion.
129
اصلشان از خاک دامنگیر ماست
مطلع این اختران کشمیر ماست
ان کی اصل ہماری خاک دامن گیر سے ہے؛ یہ ستارے آسمان کشمیر سے طلوع ہوئے ہیں۔
Their origin is from this protesting soil of ours, the rising-place of these stars is our Kashmir.
131
خاک ما را بے شرر دانی اگر
بر درون خود یکی بگشا نظر
اگر تو ہماری خاک کو بے شرر سمجھتا ہے؛ تو ذرا اپنے اندرون پر نظر ڈال۔
If you suppose our earth is without a spark, cast a glance for a moment within your heart;
133
اینہمہ سوزی کہ داری از کجاست
این دم باد بھاری از کجاست
یہ سارا سوز جو تیرے اندر ہے یہ کہاں سے آیا؟ اس باد بہاری کے جھونکے کہاں سے تھے؟
Whence comes all this ardour you possess, whence comes this breath of the breeze of spring?
135
این ہمان باد است کز تأثیر او
کوہسار ما بگیرد رنگ و بو
یہ وہی ہوا ہے جس کی تاثیر سے ہمارے کوہسار رنگ و بو پاتے ہیں۔
It is from the selfsame wind’s influence that our mountains derive their colour and scent.
137
ہیچ میدانی کہ روزی در ولر
موجہ ئی می گفت با موج دگر
کیا تجھے معلوم ہے کہ ایک دن جھیل ولر میں ایک موج دوسری موج سے کہہ رہی تھی۔
Do you not know what one day a wave said to another wave in Lake Wular?
139
چند در قلزم بہ یکدیگر زنیم
خیز تا یک دم بساحل سر زنیم
ہم کب تک جھیل کے اندر آپس میں متلاطم رہیں گی ؛ اٹھ کہ ہم ایک لمحہ کے لیے ساحل سے ٹکرائیں۔
‘How long shall we strike at each other in this sea? Rise up; let us break together against the shore.
141
زادۂ ما یعنی آن جوی کہن
شور او در وادے و کوہ و دمن
ہمارے اندر پیدا ہونے والی وہ پرانی ندی ؛ جس کا شور وادیوں، پہاڑوں اور میدانوں میں ہے۔
Our child, that is to say, yon Ancient River fills with its roar valley and mountains and meadow;
143
ہر زمان بر سنگ رہ خود را زند
تا بنای کوہ را بر می کند
وہ ہر لمحہ راستے کے پتھروں سے ٹکراتی ہے؛ یہاں تک کہ پتھر کے اندر سے بھی اپنا راستہ بنا لیتی ہے۔
Continually it smites the rocks on its path until it uproots the fabric of the mountains.
145
آن جوان کو شہر و دشت و در گرفت
پرورش از شیر صد مادر گرفت
وہ دریا جو شہروں ، جنگلوں اور آبادیوں کو لپیٹ میں لے لیتا ہے، سینکڑوں ندیوں کے پانی سے پرورش پاتا ہے۔
That youth who seized cities, deserts and plains took his nurture from the milk of a hundred mothers;
147
سطوت او خاکیان را محشری است
این ہمہ از ماست، نے از دیگری است
(دریائے جہلم کی) شوکت انسانوں کے لیے محشر بپا کر دیتی ہے، یہ ہمارے اندر ہی سے نکلا ہے، کسی اور جگہ سے نہیں نکلا۔
Its majesty strikes terror into mortal hearts; all this is from us, not from any other.
149
زیستن اندر حد ساحل خطاست
ساحل ما سنگی اندر راہ ماست
ساحل کے اندر محدود رہنا غلطی ہے؛ ہمارا ساحل ہمارے لیے سنگ راہ بنا ہوا ہے۔
To live in the bounds of the shore is a sin; our shore is but a stone in our path.
151
با کران در ساختن مرگ دوام
گرچہ اندر بحر غلتی صبح و شام
کناروں کے اندر رہنا مرگ دوام ہے؛ خواہ سمندر کے اندر ہم موجیں باہم متلاطم کیوں نہ رہیں۔
To accommodate oneself to the shore is eternal death, even though you roll in the sea morning and evening;
153
زندگی جولان میان کوہ و دشت
اے خنک موجی کہ از ساحل گذشت
زندگی کوہ و دشت کے درمیان جولانیاں دکھانے کا نام ہے؛ مبارک ہے وہ موج جو ساحل سے آگے گذر گئی۔
Life is to leap amidst mountain and desert – happy is the wave that has transgressed the shore!’
155
ایکہ خواندی خط سیمای حیات
اے بہ خاور دادہ غوغای حیات
اے (زندہ رود) تو نے زندگانی کی پیشانی پر رقم تقدیر پڑھی ہے؛ تو نے اہل مشرق کو ہنگامہ عطا کیا ہے۔
You who have read the lines on the brow of Life, you who have given to the East the tumult of Life,
157
اے ترا آہی کہ می سوزد جگر
تو ازو بیتاب و ما بیتاب تر
تیرے اندر وہ آہ ہے جس نے جگر کو جلا دیا اگر تو اس آہ سے بے تاب ہے تو ہم تجھ سے زیادہ بے تاب ہیں۔
You who have a sigh that consumes the heart, stirring you to restlessness and us still more,
159
اے ز تو مرغ چمن را ہای و ہو
سبزہ از اشک تو می گیرد وضو
باغ کے پرندے تیری وجہ سے ہا و ہو میں مصروف ہیں؛ سبزہ تیرے آنسوؤں سے وضو کرتا ہے۔
From you the birds in the meadow learned their threnody; in your tears the grasses make ablution;
161
ایکہ از طبع تو کشت گل دمید
اے ز امید تو جانہا پر امید
تیری طبع رواں سے کیاریوں میں پھول کھلتے ہیں؛ تیری امید نے دوسروں کو بھی پر امید کر دیا ہے۔
Out of your genius the field of roses blossomed, out of your hope many souls are filled with hope.
163
کاروانھا را صدای تو درا
تو ز اھل خطہ نومیدی چرا
کاروانوں کے لیے تیری آواز بانگ رحیل ہے؛ تو اہل کشمیر سے کیوں نا امید ہے؟
Your cry is a bell urging the caravans; why then do you despair of the dwellers in the Vale?
165
دل میان سینۂ شان مردہ نیست
اخگر شان زیر یخ افسردہ نیست
کشمیریوں کے سینوں میں دل مر نہیں گیا ؛ ان کا انگارہ برف کے نیچے بجھ نہیں گیا۔
Their hearts are not dead in their breasts; their embers are not extinguished under the ice;
167
باش تا بینی کہ بے آواز صور
ملتے بر خیزد از خاک قبور
ذرا ٹھہر؛ تو ابھی دیکھ لے گا کہ صور کی آواز کے بغیر اہل کشمیر قبروں کے اندر سے اٹھ کھڑے ہوں گے۔
Wait till you see, without the sound of the Trumpet, a nation rising out of the dust of the tomb.
169
غم مخور اے بندۂ صاحب نظر
بر کش آن آہی کہ سوزد خشک و تر
اے صاحب نظر غم نہ کھا بلکہ اپنے اندر سے وہ آہ نکال جو خشک و تر کو جلا دے۔
Do not grieve then, visionary; breathe out that sigh consuming all, dry and moist alike;
171
شہر ہا زیر سپہر لاجورد
سوخت از سوز دل درویش مرد
اس نیلے آسمان کے نیچے بہت سے شہر کسی درویش کے دل کی آہ سے جل چکے ہیں۔
Many cities beneath the turquoise heaven have been consumed by the flame of a dervish heart.
173
سلطنت نازکتر آمد از حباب
از دمی او را توان کردن خراب
سلطنت بلبلے سے بھی زیارہ نازک چیز ہے؛ اسے ایک پھونک سے برباد کیا جا سکتا ہے۔
Dominion is frailer than a bubble and can be destroyed by a single breath.
175
از نوا تشکیل تقدیر امم
از نوا تخریب و تعمیر امم
نوا ہی سے قوموں کی تقدیر کی تشکیل ہوتی ہے اور اسی سے ان کی تعمیر و تخریب بھی۔
The destinies of nations have been shaped by a song, by a song nations are destroyed and rebuilt.
177
نشتر تو گرچہ در دلہا خلید
مر ترا چونانکہ ہستی کس ندید
اگر چہ تیرے کلام کا تیر دلوں میں پیوست ہو چکا ہے؛ مگر کسی نے تجھے تیری حقیقی صورت میں نہیں دیکھا۔
Though your lancet has pierced men’s hearts, none has perceived you as you truly are;
179
پردۂ تو از نوای شاعری است
آنچہ گوئی ماورای شاعری است
شاعری تیرا پردہ ہے ورنہ جو کچھ تو کہتا ہے وہ شاعری سے ماورا ہے۔
Your melody springs from a poet’s song, but what you utter transcends poesy.
181
تازہ آشوبی فکن اندر بہشت
یک نوا مستانہ زن اندر بہشت
ایک نوائے مستانہ سے بہشت کے اندر ایک نیا ہنگامہ برپا کر دے۔
Stir up a new tumult in Paradise; strike up an intoxicating air in Paradise!
زندہ رود
Zinda-Rud
183
با نشئہ درویشی در ساز و دمادم زن
چون پختہ شوی خود را بر سلطنت جم زن
تشنہ ء درویشی کے ساتھ موافقت اختیار کر اور دما دم لگا رہ؛ جب پختہ ہو جائے تو اپنے آپ کو سلطنت جم کے مقابلے پر لے آ۔
Habituate yourself to the dervish wine and quaff it continuously; when you become riper, hurl yourself at the dominion of Jamshid.
185
گفتند جہان ما آیا بتو می سازد
گفتم کہ نمی سازد گفتند کہ برہم زن
پوچھنے لگے ، کیا ہمارا جہان تیرے موافق ہے؟ میں نے کہا نہیں ؛ کہنے لگے اسے برہم کر دے۔
They said, ‘This world of ours-does it agree with you?’ I said, ‘It does not agree’. They said, ‘Then break it to pieces’.
187
در میکدہ ہا دیدم شایستہ حریفی نیست
با رستم دستان زن با مغچہ ہا کم زن
میکدے میں جا کر دیکھا ہے کوئی شائستہ ندیم نہیں ہے؛ مغبچوں سے واسطہ نہ رکھ، قوّت رستم رکھنے والوں سے پنجہ لڑا۔
In the taverns I have seen there is not one worthy adversary; grapple with Rustam-i Dastan, have done with Magian boys!
189
اے لالہ صحرائی تنہا نتوانی سوخت
این داغ جگر تابی بر سینہ آدم زن
اے لالہ ء صحرائی تنہا نہیں جلا جا سکتا ؛ اپنا یہ داغ جگر تاب آدم کے سینے کو بھی عطا کر دے۔
Tulip of the wilderness, you cannot burn alone; strike this heart-enflaming brand upon the breast of man;
191
تو سوز درون او تو گرمے خون او
باور نکنی چاکی در پیکر عالم زن
تو اس کا سوز درون ہے، تو ہی اس کی گرمیء خون ہے اگر اعتبار نہیں تو پیکر کائنات کو چیر کر دیکھ لے۔
You are the ardour of his bosom, the heat of his blood – do you not believe me? Then tear apart the flesh of the world.
193
عقل است چراغ تو در راہگذاری نہ
عشق است ایاغ تو با بندۂ محرم زن
اگر عقل تیرا چراغ ہے تو اس کو سر راہ رکھ دے؛ اگر عشق تیرا پیالہ ہے تو صرف محرم راز سے مل کر پی۔
Is reason your lamp? Set it on the path to shine; or is love your cup? Quaff it with the intimate.
195
لخت دل پر خونی از دیدہ فرو ریزم
لعلی ز بدخشانم بردار و بخاتم زن
میں اپنی آنکھوں سے دل پر خون کے ٹکڑے آنسوؤں کی صورت میں گرا رہا ہوں۔
I pour forth from my eyes the bloody gouts of my heart; my ruby of Badakhshan – pick it up, and set it in your ring.
جاوید نامہ > آن سوی افلاک
صحبت با شاعر ہندی برتری ہری
جاوید نامہ > آن سوی افلاک
زیارت حضرت سید علی ھمدانی و ملا طاہر غنی کشمیری