Translation Settings
اسرارِ خودی
حکایت طایری کہ از تشنگی بیتاب بود
پرندے کی کہانی جو پیاس سے بیتاب تھا۔
The Bird That Was Faint With Thirst
01
طایری
از
تشنگی
بیتاب
بود
در
تن
او
دم
مثال
موج
دود
ایک پرندہ پیاس سے بے تاب تھا؛ سانس اس کے سینے میں دھوئیں کی لہر بن گئی تھی۔
A bird was faint with thirst; the breath in his body was heaving like waves of smoke.
03
ریزہ
ے
الماس
در
گلزار
دید
تشنگی
نظارہ
ی
آب
آفرید
اس نے باغ میں الماس کا ٹکڑا دیکھا ؛ پیاس کے باعث اسے وہ پانی نظر آیا۔
He saw a diamond in the garden: Thirst created a vision of water.
05
از
فریب
ریزہ
ی
خورشید
تاب
مرغ
نادان
سنگ
را
پنداشت
آب
دھوپ سے چمکتے ہوئے ٹکڑے سے فریب تھا کر بے سمجھ پرندے نے پتھر کو پانی سمجھ لیا۔
Deceived by the sun bright stone; the foolish bird fancied that it was water.
07
مایہ
اندوز
نم
از
گوھر
نشد
زد
برو
منقار
و
کامش
تر
نشد
اس نے اس پر چونچ ماری مگر اس کا حلق تر نہ ہوا؛ وہ گوہر سے نمی حاصل نہ کر سکا ۔
He got no moisture from the gem: He pecked it with his beak, but it did not wet his palate.
09
گفت
الماس
اے
گرفتار
ہوس
تیز
بر
من
کردہ
منقار
ہوس
الماس نے کہا! اے ہوس میں گرفتار پرندے ؛ تو نے مجھ پر اپنی چونچ ماری ہے۔
‘O thrall of vain desire,’ said the diamond; thou hast sharpened thy greedy beak on me.
11
قطرہ
ی
آبی
نیم
ساقی
نیم
من
براے
دیگران
باقی
نیم
میں پانی کا قطرہ نہیں ، نہ میں ساقی ہوں ؛ میں دوسروں کے لیے زندہ نہیں ہوں۔
But I am not a dew drop, I give no drink; I do not live for the sake of others.
13
قصد
آزارم
کنی
دیوانہ
ئے
از
حیات
خود
نما
بیگانہ
ئی
تو دیوانہ ہے جو تو نے مجھے دکھ دینے کا قصد کیا ہے؛ تو ایسی زندگی سے بے خبر ہے جو قوّت کا اظہار کرتی ہے۔
Wouldst thou hurt me? Thou art mad! A life that reveals the self is strange to thee.
15
آب
من
منقار
مرغان
بشکند
آدمی
را
گوھر
جان
بشکند
میری آب و تاب پرندوں کی چونچ توڑ دیتی ہے؛ وہ تو آدمی کی جان کا گوہر بھی ختم کر دیتی ہے۔
My water will shiver the beaks of birds; and break the jewel of man’s life.’
17
طایر
از
الماس
کام
دل
نیافت
روی
خویش
از
ریزہ
ی
تابندہ
تافت
پرندے کے دل کی خواہش الماس سے پوری نہ ہوئی ؛ اس نے چمکیلے ٹکڑے سے اپنا رخ پھیر لیا۔
The bird won not his heart's wish from the diamond; and turned away from the sparkling stone.
19
حسرت
اندر
سینہ
اش
آباد
گشت
در
گلوی
او
نوا
فریاد
گشت
اس کے سینے میں حسرت آباد ہو گئی؛ اس کی نوا اس کے گلے میں فریاد بن گئی۔
Disappointment swelled in his breast; the song in his throat became a wail.
21
قطرہ
ی
شبنم
سر
شاخ
گلی
تافت
مثل
اشک
چشم
بلبلی
شاخ گل پر شبنم کا ایک قطرہ بلبل کے آنسو کی طرح چمک رہا تھا۔
Upon a rose-twig a drop of dew; gleamed like the tear in a nightingale's eye:
23
تاب
او
محو
سپاس
آفتاب
لرزہ
بر
تن
از
ہراس
آفتاب
جس کی چمک آفتاب کی مرہون منت تھی؛ جو آفتاب کے خوف سے کانپ رہا تھا۔
All its glitter was owing to the sun; it was trembling in fear of the sun.
25
کوکب
رم
خوی
گردون
زادہ
ئی
یکدم
از
ذوق
نمود
استادہ
ئی
گویا وہ آسمان کا ایسا ستارہ تھا جو ہر دم حرکت میں رہتا ہے مگر ایک لمحے کے لیے اظہار وجود کے شوق میں ٹھہر گیا تھا۔
A restless sky born star that had stopped for a moment, from desire to be seen۔
27
صد
فریب
از
غنچہ
و
گل
خوردہ
ئی
بہرہ
ئی
از
زندگے
نا
بردہ
ئی
اس قطرہء شبنم نے کلیوں اور پھولوں سے سینکڑوں فریب کھائے تھے مگر وہ زندگی سے کچھ پا نہ سکا تھا۔
Oft deceived by bud and flower; it had gained nothing from Life.
29
مثل
اشک
عاشق
دلدادہ
ئی
زیب
مژگانی
چکید
آمادہ
ئی
عاشق دلدادہ کے اس آنسو کی مانند جو ٹپکنے پر آمادہ پلکوں کی زینت بنا ہو۔
There it hung, ready to drop; like a tear on the eyelashes of a lover who hath lost his heart.
31
مرغ
مضطر
زیر
شاخ
گل
رسید
در
دہانش
قطرہ
ی
شبنم
چکید
بے قرار پرندہ پھول کی شاخ کے نیچے پہنچا (اس قطرے کی طرف دیکھا ) تو شبنم کا قطرہ اس کے منہ میں ٹپک پڑا۔
The sorely distressed bird hopped under the rose-bush; the dewdrop trickled into his mouth.
33
اے
کہ
می
خواہی
ز
دشمن
جان
بری
از
تو
پرسم
قطرہ
ئی
یا
گوہری؟
اے وہ شخص جو دشمن سے جان بچانا چاہتا ہے؛ میں تجھ سے پوچھتا ہوں کہ تو قطرہء شبنم ہے یا الماس۔
O thou that wouldst deliver thy soul from enemies. I ask thee – ‘Art thou a drop of water or a gem?’
35
چون
ز
سوز
تشنگی
طایر
گداخت
از
حیات
دیگری
سرمایہ
ساخت
جب پیاس کی شدت سے پرندہ مرنے کے قریب ہوا تو اس نے دوسرے کی زندگی کو اپنا سرمایہء حیات بنایا۔
When the bird melted in the fire of thirst; it appropriated the life of another.
37
قطرہ
سخت
اندام
و
گوہر
خو
نبود
ریزہ
ی
الماس
بود
و
او
نبود
قطرہ ء شبنم میں سختی نہ تھی اور نہ وہ گوہر کی فطرت رکھتا تھا ؛ البتہ الماس کے ٹکڑے میں یہ بات تھی۔
The drop was not solid and gem-like; the diamond had a being, the drop had none.
39
غافل
از
حفظ
خودی
یک
دم
مشو
ریزہ
ے
الماس
شو
شبنم
مشو
تو اپنی خودی سے ایک لمحہ کے لیے بھی غافل نہ ہو؛ الماس کا ٹکڑا بن شبنم کا ٹکڑا نہ بن۔
Never for an instant neglect self-preservation: Be a diamond, not a dewdrop!
41
پختہ
فطرت
صورت
کہسار
باش
حامل
صد
ابر
دریا
بار
باش
کوہسار کی مانند پختہ فطرت بن؛ تجھ میں کئی ایسے ابر پرورش پائیں جن کے برسنے سے دریا بھر جائيں۔
Be massive in nature, like mountains; and bear on thy crest a hundred clouds laden with floods of rain!
43
خویش
را
دریاب
از
ایجاب
خویش
سیم
شو
از
بستن
سیماب
خویش
اپنی خودی مستحکم کر کے اپنا آپ پا لے؛ اپنے سیماب کو بستہ کر کے چاندی بنا لے۔
Save thyself by affirmation of self; compress thy quick silver into silver ore!
45
نغمہ
ئی
پیدا
کن
از
تار
خودی
آشکارا
ساز
اسرار
خودی
خودی کے تار سے نغمہ پیدا کر اور (اپنی ہمت آزمائیوں سے ) خودی کے اسرار دوسروں پر آشکار کر۔
Produce a melody from the string of self; make manifest the secrets of self!
English Translation by: Reynold A. Nicholson
اسرارِ خودی
حکایت الماس و زغال
اسرارِ خودی
حکایت حضرت سید مخدوم علی ھجویری