Translation Settings
جاوید نامہ · فلک قمر
جلوۂ سروش
Epiphany Of Sarosh
01
مرد
عارف
گفتگو
را
در
ببست
مست
خود
گردید
و
از
عالم
گسست
مرد عارف (وشوا متر) نے گفتگو کا دروآزہ بند کر دیا؛ وہ اپنے آپ میں مست ہو گیا اور عالم سے اپنا تعلق منقطع کر لیا۔
There upon the wise man ceased his discourse; self-intoxicated, he broke away from the world.
03
ذوق
و
شوق
او
را
ز
دست
او
ربود
در
وجود
آمد
ز
نیرنگ
شہود
اس کے ذوق و شوق نے اسے بے خود کر دیا (یعنی) ظاہر کے طلسم سے اپنے اندر گم ہو گیا۔
Ecstasy and yearning snatched him out of his own hands. Then came into being, by the magic of divine vision.
05
با
حضورش
ذرہ
ہا
مانند
طور
بے
حضور
او
نہ
نور
و
نے
ظہور
اس کی توجہ سے ذرّے طور کی مانند نظر آتے تھے؛ جب اس نے توجہ ہٹا لی تو وہاں نور تھا نہ ظہور۔
When it is present the motes become like Mount Sinai, without its presence there is nor light nor manifestation.
07
نازنینے
در
طلسم
آن
شبے
آن
شبے
بے
کوکبے
را
کوکبے
اس رات کے طلسم کے اندر ایک نازنین نمودار ہوئی؛ جو اس ستاروں سے محروم رات کے اندر ستارے کی طرح چمک رہی تھی۔
(Sarosh arrives): A delicate creature in the talisman of that night, a star shining upon that starless night.
09
سنبلستان
دو
زلفش
تا
کمر
تاب
گیر
از
طلعتش
کوہ
و
کمر
اس کی دونوں زلفوں کے سنبلستان کمر تک لٹکے ہوئے تھے ؛ اس کے چہرے سے کوہ و کمر روشنی حاصل کرتے تھے۔
The hyacinth-curls of his two tresses reached his waist, mountains and foothills drew brilliance from his face.
11
غرق
اندر
جلوۂ
مستانہ
ئی
خوش
سرود
آن
مست
بے
پیمانہ
ئی
وہ جلوہء مستانہ میں غرق تھی؛ اس مست بے پیمانہ نے دلپذیر نغمہ چھیڑا۔
Wholly drowned in a drunken epiphany, drunken without wine, he chanted melodiously.
13
پیش
او
گردندہ
فانوس
خیال
ذوفنون
مثل
سپہر
دیر
سال
اس کے سامنے خیال اس طرح گردش کرتا تھا کہ بوڑھے آسمان کی گردش کی طرح اس کے اندر سے کئی فنون پیدا ہوتے تھے۔
Before him the lantern of the imagination span around, full of wiles as the ancient sphere of heaven;
15
اندر
آن
فانوس
پیکر
رنگ
رنگ
شکرہ
بر
گنجشک
و
بر
آہو
پلنگ
اس رنگا رنگ پیکر فانوس کے اندر ؛ شکرہ چڑیا پر اور چیتا آہو پر جھپٹتا نظر آتا تھا۔
In that lantern appeared a form of many hues, hawk pouncing on sparrow, panther seizing deer.
17
من
بہ
رومی
گفتم
اے
دانای
راز
بر
رفیق
کم
نظر
بگشای
راز
میں نے رومی سے کہا اے دانائے راز اپنے کم نظر ساتھی کو بتا کہ یہ کیا راز ہے۔
I said to Rumi, ‘You who know the secret, reveal the secret to your companion of little vision.’
19
گفت
"این
پیکر
چو
سیم
تابناک
زاد
در
اندیشۂ
یزدان
پاک
رومی نے کہا اس چاندی کی طرح چمکتے ہوئے پیکر نے خدائے پاک کی مشیت میں جنم لیا۔
He said, ‘This form like unto flashing silver was born in the thought of the holy God;
21
باز
بیتابانہ
از
ذوق
نمود
در
شبستان
وجود
امید
فرود
پھر یہ پیکر ذوق نمود سے بیتاب ہو کر شبستان وجود میں اتر آیا۔
Impatiently, out of the joy of self- manifestation, he came down into the dormitory of existence,
23
ہمچو
ما
آوارہ
و
غربت
نصیب
تو
غریبی،
من
غریبم،
او
غریب
یہ بھی ہماری طرح آوارہ اور سفر نصیب ہے؛ تو بھی مسافر ہے میں بھی مسافر ہوں اور یہ بھی مسافر ہے۔
Like ourselves a wanderer, exile his portion – you are an exile, I am an exile, he is an exile.
25
شأن
او
جبریلی
و
نامش
سروش
می
برد
از
ہوش
و
می
آرد
بہوش
اس کی شان جبریلی ہے اور نام سروش؛ یہ بے خود کر کے ہوش میں لاتا ہے۔
His rank is that of Gabriel, his name is Sarosh, he transports from sense, and restores to sense.
27
غنچۂ
ما
را
گشود
از
شبنمش
مردہ
آتش،
زندہ
از
سوز
دمش
اس کی شبنم سے ہماری کلی کھلتی ہے؛ اس کے سانس کے سوز سے بجھی ہوئی آگ بھڑک اٹھتی ہے۔
It was his dew that opened our bud, the fire of his breath kindled the dead ember.
29
زخمۂ
شاعر
بہ
ساز
دل
ازوست
چاکہا
در
پردۂ
محمل
ازوست
اسی کی وجہ سے شاعر اپنے ساز دل کو مضراب سے چھیڑتا ہے؛ اسی کی وجہ سے محمل کا پردہ چاک چاک ہوتا ہے۔
The poet’s plectrum striking the chords of the heart is of him, and it is he who rends the veil shrouding the Kaaba.
31
دیدہ
ام
در
نغمۂ
او
عالمے
آتشے
گیر
از
نواے
او
دمے"
میں نے اس کے نغمہ کے اندر ایک نیا عالم دیکھا ہے؛ تو بھی ایک لحظہ کے لیے حرارت حاصل کر۔
Within his melody I have glimpsed an entire universe now take fire for a moment from his song.’
جاوید نامہ > فلک قمر
نواے سروش
جاوید نامہ > فلک قمر
نہ تا سخن از عارف ہندی