جاوید نامہ · فلک مشتری
زندہ رود مشکلات خود را پیش ارواح بزرگ میگوید
زندہ رود ارواح بزرگ کے سامنے اپنی مشکلات پیش کرتا ہے
Zinda-Rud Propounds His Problems To The Great Spirits
ز مقام مومنان دوری چرا
یعنی از فردوس مہجوری چرا
آپ لوگ مومنوں کے مقام (جنت) سے کیوں دور اور مہجور رہتے ہیں؟
Why do you keep far from the station of believers? That is, why are you exiled from Paradise?
حلاج
Hallaj
مرد آزادی کہ داند خوب و زشت
می نگنجد روح او اندر بہشت
وہ مرد آزاد (جو) خوب و نا خوب کو پہچانتا ہے؛ اس کی روح بہشت کے اندر نہیں سما سکتی۔
The free man who knows good and evil, his spirit cannot be contained in Paradise.
جنت ملا، می و حور و غلام
جنت آزادگان سیر دوام
ملّا کی جنت ، شراب، حور اور غلمان کی جنت ہے؛ آزاد لوگوں کی جنت سیر دوام ہے۔
The mullah’s Paradise is wine and houris and page boys, the Paradise of free men is eternal voyaging;
جنت ملا خور و خواب و سرود
جنت عاشق تماشای وجود
ملّا کی جنت میں کھانا، پینا ، سونا اور راگ سننا ہے؛ عاشق کی جنت موجودات کا نظارہ ہے۔
The mullah’s Paradise is eating and sleeping and singing, the lover’s Paradise is the contemplation of Being.
حشر ملا شق قبر و بانگ صور
عشق شور انگیز خود صبح نشور
ملّا کا حشر بانگ صور و شق القبر ہے؛ عشق شور انگیز خود صبح قیامت ہے۔
The mullah’s Resurrection is the splitting of the tomb and the trumpet’s blast, tumult-arousing Love is itself the Dawn of Resurrection.
علم بر بیم و رجا دارد اساس
عاشقان را نے امید و نے ہراس
علم کا دار و مدار خوف و امید پر ہے ؛ عشق بیم و رجا سے بے نیاز ہے۔
علم ترسان از جلال کائنات
عشق غرق اندر جمال کائنات
علم کائنات کے جلال سے خوف زدہ رہتا ہے؛ عشق حسن کائنات میں محو رہتا ہے۔
Science is founded upon fear and hope; lovers are troubled by neither hope nor fear;
علم را بر رفتہ و حاضر نظر
عشق گوید آنچہ می آید نگر
علم کی نظر ماضی و حال پر ہے؛ عشق جو دیکھتا ہے وہی کہتا ہے۔
Science gazes upon the past and the present, Love cries, ‘Look upon what is coming!’
علم پیمان بستہ با آئین جبر،
چارۂ او چیست غیر از جبر و صبر
علم نے جبر کے قانون کو تسلیم کر رکھا ہے؛ اس کے لیے سوائے جبر پر صبر کے اور کوئی چارہ نہیں۔
Science has made compact with the canon of constraint and has no other resource but constraint and resignation;
عشق آزاد و غیور و ناصبور
در تماشای وجود آمد جسور
عشق آزاد، غیّور اور نا صبور ہے اور موجودات کا نظارہ کرنے میں دلیر ہے۔
Love is free and proud and intolerant and boldly investigates the whole of Being.
عشق ما از شکوہ ہا بیگانہ ایست
گرچہ او را گریۂ مستانہ ایست
ہمارا عشق شکوہ و شکایت سے نا آشنا ہے؛ اس کا گریہ مستی کا گریہ ہے۔
Our love is a stranger to complaining even though it weeps the tears of drunkenness.
این دل مجبور ما مجبور نیست
ناوک ما از نگاہ حور نیست
ہمارا دل مجبور مجبور نہیں ہے؛ نگاہ حور کے تیر سے ہمارے دل زخمی نہیں ہوتے۔
Our constrained heart is not truly constrained; our arrow is not shot by any houri’s glance;
آتش ما را بیفزاید فراق
جان ما را سازگار آید فراق
فراق ہماری جان کو راس آتا ہے؛ کیونکہ وہ ہماری آتش شوق کو اور بھڑکا دیتا ہے۔
Our fire augments out of separation; separation is congenial to our soul.
بے خلشہا زیستن، نا زیستن
باید آتش در تہ پا زیستن
خلش کے بغیر زندہ رہنا کوئی زندگی نہیں؛ آتش زیر پا رہنا ہی زندگی ہے۔
Life without prickings is no true life; one must live with a fire under one’s feet.
زیستن این گونہ تقدیر خودی است
از ہمین تقدیر تعمیر خودی است
اس طرح زندہ رہنا ہی خودی کی تقدیر ہے؛ اس تقدیر سے خودی کی تعمیر ہوتی ہے۔
Such living is the destiny of the self and through this destiny the self is built up.
ذرہ ئی از شوق بیحد رشک مہر
گنجد اندر سینہ او نہ سپہر
شوق بے خود سے زرّہ بھی مہر بن جاتا ہے اور اس کے سینے میں نو آسمان سما جاتے ہیں۔
A mote through infinite yearning becomes the envy of the sun, in its breast the nine spheres cannot be contained;
شوق چون بر عالمے شبخون زند
آنیان را جاودانے می کند
جب شوق جہان پر شبخون مارتا ہے؛ پل بھر کی زندگی رکھنے والوں کو ہمیشہ کی زندگی عطا کر دیتا ہے۔
When yearning makes assault upon a world it transforms momentary beings into immortals.
زندہ رود
Zinda-Rud
گردش تقدیر مرگ و زندگیست
کس نداند گردش تقدیر چیست
گردش تقدیر موت اور زندگی ہے؛ کوئی نہیں جانتا کہ گردش تقدیر کیا ہے؟
The wheeling of destiny is death and life; no man knows what the wheeling of destiny is.
حلاج
Hallaj
ہر کہ از تقدیر دارد ساز و برگ
لرزد از نیروی او ابلیس و مرگ
جو شخص تقدیر کا ساز و سامان رکھتا ہے؛ اس کی قوّت سے ابلیس و مرگ بھی ڈرتے ہیں۔
Whoever possesses the apparatus of destiny, IbIis and death tremble before his might.
جبر دین مرد صاحب ہمت است
جبر مردان از کمال قوت است
جبر، صاحب ہمت شخص کا دین ہے؛ جواں مردوں کا جبر ان کی قوّت کے کمال کے سبب ہے۔
Predestination is the religion of men of zeal, predestination for heroes is the perfection of power.
پختہ مردی پختہ تر گردد ز جبر،
جبر مرد خام را آغوش قبر
پختہ شخص جبر سے پختہ تر ہو جاتا ہے ؛ نا پختہ کے لیے جبر آغوش قبر ہے۔
Ripe souls become yet riper through constraint which for raw men is the embrace of the tomb.
جبر خالد عالمے برھم زند
جبر ما بیخ و بن ما بر کند
خالد (رضی) کے جبر نے ایک دنیا کو تہ و بالا کر دیا ؛ ہمارے جبر نے ہمیں جڑ سے اکھاڑ دیا۔
Khalid constrained turns a world upside down; for us, constraint tears us up by the roots.
کار مردان است تسلیم و رضا
بر ضعیفان راست ناید این قبا
تسلیم و رضا جوانمردوں کا کام ہے؛ یہ قبا کمزوروں کے بدن پر راست نہیں آتی۔
The business of true men is resignation and submission; this garment does not suit the weaklings.
تو کہ دانی از مقام پیر روم
می ندانی از کلام پیر روم
تو جو پیر روم کے مقام سے آکاہ ہے ؛ کیا تو نے ان کے یہ اشعار نہیں پڑھے۔
You who know the station of the Sage of Rum, do you not know the words of the Sage of Rum?
"بود گبری در زمان با یزید
گفت او را یک مسلمان سعید
'حضرت با یزید بسطامی (رحمتہ) کے زمانے میں ایک یہودی تھا؛ ایک نیک بخت مسلمان نے اس سے کہا۔
‘A fire-worshipper there was in the time of Ba Yazid; a blessed Moslem said to him;
خوشتر آن باشد کہ ایمان آورے
تا بدست آید نجات و سروری
بہتر ہے کہ تو ایمان لے آئے تا کہ دنیا میں سرداری اور آخرت میں نجات پائے۔
Better were it if you accepted the Faith so that salvation and the excellence would be yours.’
گفت این ایمان اگر ہست اے مرید
آن کہ دارد شیخ عالم با یزید
اس نے کہا ، اے ارادتمند اگر ایمان وہ ہے جو حضرت با یزید رکھتے تھے۔
The other said, "Disciple, if this be faith that the Shaikh of the World Ba Yazid possesses;
من ندارم طاقت آن، تاب آن
کان فزون آمد ز کوششہای جان
تو مجھ میں اس کی تاب و تواں نہیں ؛ وہ (میری) جان کی کوشش سے بڑھ کر ہے'۔
I cannot endure its glowing heat which is too great for the strivings of my soul." – Rumi.
رومی
Rumi
کار ما غیر از امید و بیم نیست
ہر کسی را ہمت تسلیم نیست
ہمارا کام امید و خوف کے علاوہ اور کچھ نہیں ہر کسی میں تسلیم و رضا کی ہمت نہیں۔
Our concern is only with hope and fear; not every man has the zeal to surrender.
ایکہ گوئی بودنی این بود، شد
کار ہا پابند آئین بود، شد
اے وہ شخص جو یہ کہتا تھا یہ ہونا تھا، یہ ہو کے رہا ؛ کام ایک آئین کے پابند تھے اس لیے ایسا ہوا۔
You who say, ‘This was to be, and so happened; all things were tethered to a divine decree, and so happened;’
معنی تقدیر کم فہمیدہ ئی
نے خودی را نے خدا را دیدہ ئے
تو تقدیر کے معنی نہیں سمجھا؛ نہ تو خودی کو سمجھا اور نہ اللہ تعالے کی شان کو۔
You have little understood the meaning of destiny; you have seen neither selfhood nor God.
مرد مومن با خدا دارد نیاز
"با تو ما سازیم، تو با ما بساز"
مرد مومن اللہ تعالے کے ساتھ راز و نیاز رکھتا ہے اور کہتا ہے ہم نے آپ سے موافقت کی آپ ہم سے موافقت کریں۔
The believer true thus petitions God: ‘We accord with you, so accord with us.’
عزم او خلاق تقدیر حق است
روز ہیجا تیر او تیر حق است
مرد مومن کا عزم حق تعالے کی تقدیرات کا خلاق ہے جنگ کے دن اس کا تیر اللہ تعالے کا تیر بن جاتا ہے ('و ما رمیت اذ رمیت' کی طرف اشارہ ہے)۔
His resolution is the creator of God’s determination and on the day of battle his arrow is God’s arrow.
زندہ رود
Zinda-Rud
کم نگاہان فتنہ ہا انگیختند
بندۂ حق را بہ دار آویختند
آشکارا بر تو پنھان وجود
باز گو آخر گناہ تو چہ بود؟
کم نگاہوں نے فتنے برپا کر دئے (تجھ جیسے) بندہ حق کو سولی پر لٹکا دیا۔ تجھ پر وجود کے اسرار آشکار ہیں ؛ بتا تو سہی آخر تیر ا گناہ کیا تھا؟
Zindah Men of short vision have stirred up commotions and hung God’s true servant on the gibbet. The hidden things of Being are manifest to you; declare then, what was your crime?
حلاج
Hallaj
بود اندر سینۂ من بانگ صور
ملتے دیدم کہ دارد قصد گور
میرے سینے کے اندر بانگ صور تھی؛ میں نے ایک ایسی قوم دیکھی جس کی سوچ اسے قبر کی طرف لی جا رہی تھی۔
The sound of the Last Trump was in my breast; I saw a people hastening to the tomb,
مومنان با خوی و بوے کافران
لاالہ گویان و از خود منکران
تھے وہ مومن لیکن ان کی خو بو کافروں جیسی تھی؛ لاالہ پڑھتے تھے، مگر اپنی قوّت کے منکر تھے۔
Believers with the character and colour of infidels who cried ‘No god but God’ and denied the Self.
"امر حق" گفتند نقش باطل است
زانکہ او وابستۂ آب و گل است
وہ کہتے تھے کہ روح نقش باطل ہے کیونکہ وہ بدن کے سا تھ وابستہ ہے۔
‘God’s bidding’ they called a vain image because it was bound to water and clay.
من بخود افروختم نار حیات
مردہ را گفتم ز اسرار حیات
میں نے اپنے اندر زندگی کی آگ روشن کی؛ مردہ لوگوں کو زندگی کے اسرار بتائے۔
I kindled in my self the fire of life and spoke to the dead of the mysteries of life.
از خودی طرح جہانی ریختند
دلبری با قاہری آمیختند
(میں نے ان سے کہا کہ) اس جہان کی بنیاد خودی پر رکھی گئی ہے؛ یہاں دلبری کے ساتھ قاہری کی بھی امیزش ہے۔
The whole world has been founded on Selfhood; love therein has been compounded with violence;
ہر کجا پیدا و نا پیدا خودی
بر نمے تابد نگاہ ما خودی
کہیں خودی ظاہر ہے کہیں مستور ؛ مگر ہماری نگاہ اس کی تاب نہیں لا سکتی۔
Selfhood is everywhere visible, yet invisible, our gaze cannot endure to look on Selfhood;
نار ہا پوشیدہ اندر نور اوست
جلوہ ہای کائنات از طور اوست
خودی کے نور کے اندر کئی قسم کی آگ پوشیدہ ہے؛ اس کے طور سے کائنات میں رنگا رنگ جلوے ہیں۔
Within its light many fires lurk hidden, from its Sinai creation’s epiphanies shine.
ہر زمان ہر دل درین دیر کہن
از خودی در پردہ میگوید سخن
اس دیر کہن میں ہر دل ہر لمحہ در پردہ خودی سے سرگرم سخن ہے۔
Every moment every heart in this ancient convent discourses, albeit secretly, of the Self;
ہر کہ از نارش نصیب خود نبرد
در جہان از خویشتن بیگانہ مرد
جو خودی کی آگ سے حصّہ نہیں پاتا وہ اس جہان میں اپنے آپ سے نا آشنا رہتا ہوا رخصت ہوتا ہے۔
Whoever has not taken his share of its fire has died in the world, a stranger to himself.
ہند و ھم ایران ز نورش محرم است
آنکہ نارش ہم شناسد آن کم است
ہند و ایران خودی کے نور سے آشنا ہیں؛ لیکن وہ لوگ کم ہیں جو اس کی نار سے آگاہ ہوں۔
India and Iran alike are privy to its light, but few there are who also know its fire.
من ز نور و نار او دادم خبر
بندۂ محرم گناہ من نگر
میں نے خودی کے نور و نار دونوں کی خبر دی؛ تو بندہ محرم ہے دیکھ لے میرا گناہ کیا تھا۔
I have spoken of its light and its fire; confidant of my secret, see now my crime.
آنچہ من کردم تو ہم کردی بترس
محشری بر مردہ آوردی بترس
آگاہ رہ جو کچھ میں نے کہا تھا ، تو بھی وہی کہہ رہا ہے؛ تو بھی ایک مردہ قوم میں بانگ صور پھونک رہا ہے۔
What I have done you too have done; beware! You have sought to resurrect the dead: beware!
طاہرہ
Tahira
از گناہ بندۂ صاحب جنون
کائنات تازہ ئی آید برون
صاحب جنون بندے کے گناہ سے ایک نئی کائنات وجود میں آتی ہے۔
From the sin of a frenzied servant of God new creatures come into being;
شوق بیحد پردہ ہا را بر درد
کہنگی را از تماشا می برد
حد سے بڑھے ہوئے شوق سارے پردے ہٹا دیتا اور قدیم جہان کا خاتمہ کر دیتا ہے۔
Unbounded passion rends veils apart, removes from the vision the old and stale,
آخر از دار و رسن گیرد نصیب
بر نگردد زندہ از کوی حبیب
پھر وہ بالاخر دار و رسن کا انعام پاتا ہے ؛ وہ کوئے حبیب سے زندہ واپس نہیں آتا۔
And in the end meets its portion in rope and gallows neither turns back living from the Beloved’s street.
جلوۂ او بنگر اندر شہر و دشت
تا نپنداری کہ از عالم گذشت
اب تو شہر و صحرا میں منصور کے جلوے دیکھ تاکہ تجھے یہ گمان نہ ہو کہ وہ دنیا سے رخصت ہو چکا ہے۔
Behold Love’s glory in city and fields, lest you suppose it has passed away from the world;
در ضمیر عصر خود پوشیدہ است
اندرین خلوت چسان گنجیدہ است
وہ اپنے زمانے کے ضمیر کے اندر پوشیدہ ہے؛ معلوم نہیں کہ وہ اس کی خلوت میں کیسے سما گیا؟
It lies concealed in the breast of its own time – how could it be contained in such a closet as this?
زندہ رود
Zinda-Rud
اے ترا دادند درد جستجوی
معنی یک شعر خود با من بگوی
"قمری، کف خاکستر و بلبل قفس رنگ
اے نالہ نشان جگر سوختہ ئی چیست"
آپ کو درد جستجو عطا ہوا ہے؛ مجھے اپنے ایک شعر کے معنی تو بتائیے۔ 'قمری کف خاکستر و بلبل قفس رنگ؛ اے نالہ نشان جگر سوختہ کیا ہے؟'
You who have been given the agony of the eternal quest, explain to me the meaning of a verse of yours: The dove is a handful of ashes, the nightingale a network of colour – O lamentation, what is the true sign of a broken heart?
غالب
Ghalib
نالہ ئی کو خیزد از سوز جگر
ہر کجا تأثیر او دیدم دگر
وہ نالہ جو سوز جگر سے اٹھا ہے؛ میں نے ہر کہیں اس کی تاثیر مختلف دیکھی۔
The lament that rises out of a broken heart – I have seen its effect different in every place;
قمری از تأثیر او وا سوختہ
بلبل از وی رنگہا اندوختہ
قمری اس کی تاثیر سے سر تا پا سوختہ ہے؛ بلبل نے اس سے مختلف رنگ حاصل کئے ہیں۔
The dove is consumed through its influence, the nightingale daubed with colours as its result.
اندرو مرگی بہ آغوش حیات
یک نفس اینجا حیات آنجا ممات
اس نالے کے اندر حیات کے آغوش میں موت ملتی ہے ایک، ایک ہی لمحہ ادھر زندگی ہے ادھر موت۔
In it, death is in the embrace of life, one moment here is life, there is death;
آنچنان رنگی کہ ارژنگی ازوست
آنچنان رنگی کہ بیرنگی ازوست
ایسا بھی رنگ ہے کہ اس سے کئی قسم کے رنگ پیدا ہوتے ہیں اور ایسے بھی رنگ ہے جو بے رنگی کی طرف لی جاتا ہے۔
Such a colour as glowed in Mani’s abode, such a colour as begets colourlessness.
تو ندانی این مقام رنگ و بوست
قسمت ہر دل بقدر ہای و ہوست
تو نہیں جانتا کہ یہ دنیا مقام رنگ و بو ہے، یہاں ہر دل اپنی ہا و ہو کے مطابق حصّہ پاتا ہے۔
You know not, this is the station of colour and scent; the portion of every heart is according to its ululation.
یا بہ رنگ آ، یا بہ بیرنگی گذر
تا نشانی گیری از سوز جگر
یا رنگ میں اور یا بے رنگی اختیار کر تاکہ سوز جگر کا نشان پا سکے۔
Either enter colour, or pass into colourlessness, that you may grasp a token of the broken heart.
زندہ رود
Zinda-Rud
صد جہان پیدا درین نیلی فضاست
ہر جہان را اولیا و انبیاست
اس نیلی فضا میں سینکڑوں جہان موجود ہیں؛ کیا ہر جہان کے (اپنے ) اولیا و انبیا ہیں۔
A hundred worlds are manifest in this azure expanse; are there saints and prophets in every world?
غالب
Ghalib
نیک بنگر اندرین بود و نبود
پی بہ پی آید جہانھا در وجود
"ہر کجا ہنگامۂ عالم بود
رحمة للعالمینی ہم بود"
اس ہستی و عدم کو غور سے دیکھ یہاں پے بہ پے نئے جہان وجود میں آ رہے ہیں۔ جہاں کہیں ہنگامہء عالم ہے وہاں رحمتہ العالمین ( حضور اکرم صلعم) بھی ہیں۔
Consider well this being and not-being; continuously worlds are coming into existence. Wherever the tumultuous clamour of a world arises, there too is a Marcy unto all beings.
زندہ رود
Zinda-Rud
فاش تر گو زانکہ فہمم نارساست
وضاحت سے کہئے کیونکہ میرا فہم نا رسا ہے۔
Speak more plainly; my understanding flags.
غالب
Ghalib
این سخن را فاش تر گفتن خطاست
یہ بات بھول کر کہنا خطا ہے۔
It were a sin to speak of these things more plainly.
زندہ رود
Zinda-Rud
گفتگوی اہل دل بیحاصل است
کیا اہل دل کی گفتگو بے حاصل ہے۔
Then is the conversation of adepts unprofitable?
غالب
Ghalib
نکتہ را بر لب رسیدن مشکل است
(اس) نکتے کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔
It is difficult to give tongue to this subtlety.
زندہ رود
Zinda-Rud
تو سراپا آتش از سوز طلب
بر سخن غالب نیائی اے عجب
آپ تو سوز طلب سے سر تا پا آتش ہیں ؛ تعجب کی بات ہے کہ آپ بھی سخن پر غالب (نہیں)۔
You are wholly afire with the glow of the quest, yet how strange, you cannot master mere words!
غالب
Ghalib
خلق و تقدیر و ہدایت ابتداست
رحمة للعالمینی انتہاست
تخلیق کرنا ، ہر وجود کی استعداد مقرر کرنا اور اس کے اندر آگے بڑھنے کا جذبہ رکھنا – یہ ابتدا ہے اور مقام رحمتہ العالمین انتہا ہے۔
‘Creation’, ‘Predestination’, ‘Guidance’ are the beginning; a Mercy unto all beings is the end.
زندہ رود
Zinda-Rud
من ندیدم چھرۂ معنی ہنوز
آتشے دارے اگر ما را بسوز
میں ابھی تک معنی کا چہرہ نہیں دیکھ سکا ؛ اگر تو آتش رکھتا ہے تو میرے (افکار پریشان کو) جلا دے۔
I have not yet glimpsed the face of the meaning; if you possess a fire, then burn me!
غالب
Ghalib
اے چو من بینندۂ اسرار شعر
این سخن افزونتر است از تار شعر
تو بھی میری طرح اسرار شعر کا جاننے والا ہے یہ بات شعر میں بیان نہیں کی جا سکتی۔
You who like me descry the secrets of poetry, these words overstretch the string of poetry;
شاعران بزم سخن آراستند
این کلیمان بے ید بیضاستند
شاعر محض سخن آرائی کرتے ہیں؛ یہ ایسے کلیم ہیں جن کے پاس ید بیضا نہیں۔
The poets have adorned the banquet of words, but these Moses lack the White Hand.
آنچہ تو از من بخواہی کافری است
کافری کو ماورای شاعری است
جو کچھ تو مجھ سے چاہتا ہے یہ کافری ہے اور شاعری سے ماورا ہے۔
What you demand of me is unbelief, an unbelief transcending poetry.
حلاج
Hallaj
ہر کجا بینی جھان رنگ و بو
آن کہ از خاکش بروید آرزو
یا ز نور مصطفی او را بہاست
یا ہنوز اندر تلاش مصطفی است
جہاں کہیں تو جہان رنگ و بو دیکھتا ہے؛ ایسا جہان جس کی خاک سے آرزو پھوٹتی ہو۔ یا تو اس کی قدر و قیمت نور مصطفے (صلعم) سے ہے یا وہ ابھی تک مصطفے (صلعم) کی تلاش میں ہے۔
Wherever you see a world of colour and scent out of whose soil springs the plant of desire Is either already illumined by the light of the Chosen One or is still seeking for the Chosen One.
زندہ رود
Zinda-Rud
از تو پرسم گرچہ پرسیدن خطاست
سر آن جوہر کہ نامش مصطفی است
آدمی یا جوھری اندر وجود
آنکہ آید گاہگاہی در وجود
گرچہ یہ بات پوچھنی خطا ہے مگر میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ وہ جوہر جس کا نام مصطفے (صلعم) ہے اس کا راز کیا ہے؟ وہ آدم ہے یا جوہر جو گاہے گاہے وجود میں آتا ہے؛ (انبیا کی ارواح کا درجہ باقی ارواح سے افضل ہے اور حضور اکرم (صلعم) کی روح خاص الخواص ہے؛ جو سب سے پہلے تخلیق کی گئی۔یہاں انبیا کی بعثت کی طرف اشارہ ہے)۔
I ask of you-though to ask is a sin – the secret of that essence whose name is the Chosen One; Is it a man or an essence in being such as but rarely comes into existence?
حلاج
Hallaj
پیش او گیتی جبین فرسودہ است
خویش را خود عبدہ فرمودہ است
آپ (صلعم) کے سامنے زمانہ سر بسجود ہے؛ لیکن آپ (صلعم) نے خود اپنے آپ کو عبدہ کہا ہے۔
Before him the whole world bows prostrate, before him who called himself His servant.
عبدہ از فھم تو بالاتر است
زانکہ او ہم آدم و ھم جوہر است
کا مقام تیرے فہم سے بالاتر ہے کیونکہ وہ آدم بھی ہے اور جوہر بھی۔عبدہ
‘His servant’ surpasses your understanding because he is man, and at the same time essence.
جوہر او نے عرب نے اعجم است
آدم است و ہم ز آدم اقدم است
اس کا جوہر نہ عرب سے ہے نہ عجم سے؛ ہے وہ آدم مگر اس کا وجود آدم سے پہلے ہے (حضور ( صلعم) نے فرمایا میں اس وقت بھی موجود تھا جب آدم ابھی پانی اور مٹی کے درمیان تھا۔
His essence is neither Arab nor non-Arab; he is a man, yet more ancient than man.
عبدہ صورتگر تقدیر ہا
اندرو ویرانہ ہا تعمیر ہا
عبدہ سے تقدیر وں کو بنانے والا ہے اس کے اندر ویرانے بھی ہیں اور تعمیرات بھی۔
‘His servant’ is the shaper of destinies, in him are deserts and flourishing cultivations;
عبدہ ھم جانفزا ہم جان ستان
عبدہ ہم شیشہ ہم سنگ گران
عبدہ مومنوں کی جان میں افزودگی کا باعث بنتا ہے؛ اور کفار کی جان کھینچ لیتا ہے۔
‘His servant’ both increases life and destroys it; ‘His servant’ is both glass and heavy stone.
عبد دیگر عبدہ چیزی دگر
ما سراپا انتظار او منتظر
عبد اور ہے، اور عبدہ اور جیز ہے؛ ہم سرا پا انتظار ہیں اور اس کا انتظار کیا جاتا ہے (معراج کی طرف اشارہ ہے)۔
‘Servant’ is one thing, ‘His servant’ is another; we are all expectancy, he is the expectation.
عبدہ دہر است و دہر از عبدہ است
ما ہمہ رنگیم و او بے رنگ و بوست
عبدہ زمانہ ہے اور زمانہ عبدہ سے پیدا ہوتا ہے؛ ہم سب مختلف (تعصبات کے) رنگوں میں رنگے ہوئے ہیں اور وہ بے رنگ و بو ہے۔
‘His servant’ is time, and time is of ‘His servant’; we all are colour, he is without colour and scent.
عبدہ با ابتدا بے انتہا است
عبدہ را صبح و شام ما کجاست
اگرچہ عبدہ کی ابتدا ہے مگر اس کے (ارتقا) کی کوئی انتہا نہیں ؛ عبدہ کے صبح و شام ہمارے صبح و شام نہیں۔
‘His servant’ had beginning, but has no end; what have our morn and eve to do with ‘His servant’?
کس ز سر عبدہ آگاہ نیست
عبدہ جز سر الا اﷲ نیست
عبدہ سے کے سرّ سے کوئی آگاہ نہیں؛ صرف عبدہ ہی الا اﷲ کا سرّ ہے۔
No man knows the secret of ‘His servant’; ‘His servant’ is naught but the secret of ‘save God’.
لاالہ تیغ و دم او عبدہ
فاش تر خواہی بگو ہو عبدہ
لاالہ تیغ ہے اور اس کی دھار عبدہ ہے؛ فاش تر کہیں تو وہ خود عبدہ ہی ہے۔(آیک حدیث قدسی کے مطابق بندہ نوافل یعنی زائد عبادت کے ذریعے اللہ تعالے کا قرب حاص کرتا چلا جاتا؛ یہاں تک کہ اللہ تعالے اس کی بصارت بن جاتے ہیں، اس کے ہاتھ بن جاتے ہیں۔
‘Save God’ is the sword whose edge is ‘His servant’; do you want it plainer? Say, He is ‘His servant’.
عبدہ چند و چگون کائنات
عبدہ راز درون کائنات
عبدہ سے کائنات کا معیار ہے؛ وہی کائنات کا راز درون ہے۔
‘His servant’ is the how and why of creation, ‘His servant’ is the inward mystery of creation.
مدعا پیدا نگردد زین دو بیت
تا نبینی از مقام "ما رمیت"
ان دو بیت سے بات واضح نہیں ہوتی جب تک تو مقام 'ما رمیت ' کو نہ سمجھے۔
The true meaning of these two verses becomes not clear until you behold from the station of Thou threwest not.
بگذر از گفت و شنود اے زندہ رود
غرق شو اندر وجود اے زندہ رود
اے زندہ رود بات چیت چھوڑ؛ اور (عبد ہ کے) وجود کے اندر گم ہو جا۔
Zinda-Rud, have done now with speaking and listening, become drowned in the ocean of being, Zinda-Rud.
زندہ رود
Zinda-Rud
کم شناسم عشق را این کار چیست
ذوق دیدار است پس دیدار چیست
میں نہیں سمجھ سکا کہ عشق کا کیا کام ہے؟ اگر ذوق دیدار ہے تو دیدار کیا ہے؟
I know so little-what is this business of Love? Is it the joy of beholding? Then what is beholding?
حلاج
Hallaj
معنی دیدار آن آخر زمان
حکم او بر خویشتن کردن روان
نبی آخر زمان (صلعم) کے دیدار کے معنی یہ ہیں کہ اپنے اوپر آپ (صلعم) کا حکم جاری کیا جائے۔
The meaning of beholding that Last of Time is to make his rule binding on oneself.
در جہان زی چون رسول انس و جان
تا چو او باشی قبول انس و جان
دنیا میں جناب رسول پاک (صلعم) کی سنت کے مطابق زندگی بسر کر تاکہ تو بھی ان (صلعم) کی مانند انس و جان کا محبوب بن جائے۔
Live in the world like the Apostle of men and jinn that like him you may be accepted by men and jinn
باز خود را بین ہمین دیدار اوست
سنت او سری از اسرار اوست
پھر اپنے آپ کو دیکھ ، یہی آپ (صلعم) کا دیدار ہے؛ آپ (صلعم) کی سنت ہی آپ (صلعم) کے اسرار کا ایک سرّ ہے۔
Then behold yourself-that is the same as beholding him; his Sunna is a secret of his secrets.
زندہ رود
Zinda-Rud
چیست دیدار خدای نہ سپہر
آنکہ بے حکمش نگردد ماہ و مہر
کائنات کے مالک (اللہ تعالے) جن کے حکم کے بغیر سورج چاند گردش نہیں کرتے ؛ ان کا دیدار کیا چیز ہے؟
What is the beholding of the God of the nine spheres, of Him without whose command moon and sun do not revolve?
حلاج
Hallaj
نقش حق اول بجان انداختن
باز او را در جہان انداختن
پہلے اللہ تعالے کے نقش کو اپنی جان پر ثبت کرنا (اللہ تعالے کے احکام کو اپنے اوپر نافذ کرنا) پھر انہیں جہان میں نافذ کرنا۔
First, to implant on one’s soul the image of God, then next to implant it on the world;
جان تا در جہان گردد تمام
می شود دیدار حق دیدار عام
جب اپنی جان پر ثبت کیا ہوا نقش حق تعالے دنیا میں مکمل ہو جائے تو اللہ تعالے کا دیدار عام ہو جاتا ہے۔
When the soul’s image is perfected in the world, to behold the commons is to behold God.
اے خنک مردی کہ از یک ہوی او
نہ فلک دارد طواف کوی او
مبارک ہے وہ شخص جس کی ایک 'ہو' سے نو آسمان اس کی گلی کا طواف کرنے لگتے ہیں۔
Blessed is the man whose single sigh causes the nine heavens to circle about his dwelling;
واے درویشی کہ ہوئی آفرید
باز لب بر بست و دم در خود کشید
افسوس ہے اس درویش پر جس نے ایک بار 'ہو' کی آواز نکالی مگر پھر اپنے لب بند کر لیے اور اپنی سانس روک لی۔
Woe to the dervish who, having uttered a sigh then closes his lips and draws back his breath!
حکم حق را در جھان جاری نکرد
نانی از جو خورد و کرارے نکرد
اس نے اللہ تعالے کے حکم کو دنیا میں نافذ نہ کیا ؛ جو کی روٹی تو کھائی مگر حیدر کرّار (رضی) کا سا عمل اختیار نہ کیا۔
Such a one never made God’s rule to run in the world; he ate barley-bread, but never fought like Ali;
خانقاہی جست و از خیبر رمید
راہبی ورزید و سلطانی ندید
اس نے خانقاہ ڈھونڈی مگر معرکہء خیبر سے دور رہا؛ راہبی اختیار کی مگر سلطانی نہ دیکھی۔
He sought a convent and fled from Khaibar; he practised monkhood and never saw royal power.
نقش حق داری جہان نخچیر تست
ہم عنان تقدیر با تدبیر تست
اگر تو اپنے اندر نقش حق رکھتا ہے تو جہان کو شکار کر؛ تقدیر بھی تیری تدبیر کے مطابق راستہ اختیار کرے گی۔
Do you possess God’s image? The world is your prey; destiny shares the same reins as your design.
عصر حاضر با تو می جوید ستیز
نقش حق بر لوح این کافر بریز
عصر حاضر تجھ سے نبرد آزمائی چاہتا ہے؛ اس کافر پر اللہ تعالے کا نقش ثبت کر دے۔
The present age seeks to war with you; imprint God’s image on this infidel’s tablet!
زندہ رود
Zinda-Rud
نقش حق را در جھان انداختند
من نمی دانم چسان انداختند
اللہ تعالے کے نقش کو دنیا میں ثبت کیا گیا ہے ؛ مگر میں نہیں جانتا کہ اسے کیسے ثبت کیا گیا ہے؟
God’s image has been implanted on the world; I do not know how it has been implanted.
حلاج
Hallaj
یا بزور دلبری انداختند
یا بزور قاھری انداختند
زانکہ حق در دلبری پیدا تر است
دلبری از قاہری اولی تر است
یا اسے دلبری کے زور سے ثبت کیا گیا ہے، یا قاہری کے زور سے۔ چونکہ اللہ تعالے کی شان دلبری (رحمت) میں زیادہ واضح ہوتی ہے اس لیے دلبری قاہری سے اونچا درجہ رکھتی ہے۔
It has been implanted by force of love or it has been implanted by force of violence; Because God is more manifest in love, love is a better way than violence.
زندہ رود
Zinda-Rud
باز گو اے صاحب اسرار شرق
در میان زاہد و عاشق چہ فرق
اے اسرار شرق کے راز دان! ایک بار پھر بیان کر کہ زاہد و عاشق کے درمیان کیا فرق ہے؟
Declare, master of the secrets of the East, what difference is there between the ascetic and the lover?
حلاج
Hallaj
زاہد اندر عالم دنیا غریب
عاشق اندر عالم عقبی غریب
زاہد دنیا میں اجنبی ہے اور عاشق جنت میں اجنبی ہے۔
The ascetic is a stranger in this present world; the lover is a stranger in the world to come.
زندہ رود
Zinda-Rud
معرفت را انتہا نابودن است
زندگی اندر فنا آسودن است
کیا معرفت کی انتہا اپنی ہستی مٹا دینا اور فنا کے اندر آسودگی حاصل کرنا ہے؟
The end of gnosis is not-being what is life to repose in annihilation?
حلاج
Hallaj
سکر یاران از تہی پیمانگی است
نیستی از معرفت بیگانگی است
اے کہ جوئی در فنا مقصود را
در نمے یابد عدم موجود را
یاروں کی مستی کا باعث ان کا جام خالی ہونا ہے؛ اپنے آپ کو مٹا دینا معرفت سے نا آشنا ہونا ہے۔ تو جو فنا میں اپنا مقصود ڈھونڈتا ہے عدم کو نہیں پا سکتا (عدم موجود کی ضد ہے)۔
The intoxication of lovers comes from emptied cups; not-being is to be ignorant of gnosis You who seek your goal in annihilation, non-existence can never discover existence.
زندہ رود
Zinda-Rud
آنکہ خود را بہتر از آدم شمرد
در خم و جامش نہ می باقی نہ درد
مشت خاک ما بگردون آشناست
آتش آن بے سر و سامان کجاست
ابلیس جس نے اپنے آپ کو آدم سے بہتر شمار کیا اب اس کے خم و جام میں نہ شراب باقی ہے نہ تلچھٹ۔ ہماری مشت خاک آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی ہے؛ اس بے سر و سامان کی آگ (آج) کہاں ہے۔
He who counted himself better than Adam; in his jar and cup remains neither wine nor lees; Our handful of dust is acquainted with the skies where is the fire of that destitute one?
حلاج
Hallaj
کم بگو زان خواجۂ اہل فراق
تشنہ کام و از ازل خونین ایاق
اس خواجہء اہل فراق کی بات نہ کر، وہ ازل سے تشنہ کام ہے؛ اگرچہ اس کا پیالہ خونیں شراب سے پر ہے۔
Speak little of that Leader of those in separation, throat athirst, and eternally a blood-filled cup.
ما جہول، او عارف بود و نبود
کفر او این راز را بر ما گشود
ہم جہول ہیں وہ ہستی و نیستی سے واقف ہے؛ اس کے انکار نے ہم پر یہ راز واضح کیا۔
We are ignorant, he knows being and not-being; his infidelity revealed to us this mystery,
از فتادن لذت برخاستن
عیش افزدون ز درد کاستن
اٹھنے کی لذت گرنے ہی سے ہے؛ بڑھنے کا لطف کھو دینے کے درد ہی سے ہے۔
How that from falling comes the delight of rising, from the pain of waning springs the joy of waxing.
عاشقے در نار او وا سوختن
سوختن بے نار او نا سوختن
اس کی آگ میں جلنا عاشقی ہے؛ اور اس کی آگ کے بغیر جلنا نہ جلنے کے برابر ہے۔
Love is to burn in his fire; without his fire, burning is no burning.
زانکہ او در عشق و خدمت اقدم است
آدم از اسرار او نامحرم است
کیونکہ وہ عشق اور عبادت میں آدم سے قدیم تر ہے اس لیے آدم اس کے اسرار سے نا محرم ہے۔
Because he is more ancient in love and service, Adam is not privy to his secrets.
چاک کن پیراہن تقلید را
تا بیاموزی ازو توحید را
تقلید کا پیرہن چاک کر تاکہ اس سے توحید سیکھے۔
Tear off the skirt of blind conformity that you may learn God’s Unity from him.
زندہ رود
Zinda-Rud
اے ترا اقلیم جان زیر نگین
یک نفس با ما دگر صحبت گزین
روح کی سلطنت آپ کے زیر نگیں ہے؛ تھوڑی دیر اور ہمیں اپنی صحبت سے نوازیئے۔
You who hold the clime of the soul under your royal signet, keep company with me a moment more.
حلاج
Hallaj
با مقامے در نمی سازیم و بس
ما سراپا ذوق پروازیم و بس
ہر زمان دیدن تپیدن کار ماست
بے پر و بالے پریدن کار ماست
ہم کسی ایک مقام کے ساتھ موافقت نہیں کر سکے؛ ہم سرا پا ذوق پرواز ہیں اور بس۔ ہر لمحہ دیکھنا اور تڑپتے رہنا ہمارا کام ہے؛ ہم بغیر پر و بال کے اڑتے رہتے ہیں۔
We do not tolerate confinement to one station, we are wholly and singly a yearning to soa Every instant our occupation is to see and to quiver, our labour is to fly without feathers and wings.
جاوید نامہ > فلک مشتری
نمودار شدن خواجۂ اہل فراق ابلیس