جاوید نامہ · فلک زحل
قلزم خونین
خونیں سمندر
The Sea Of Blood
آنچہ 
دیدم 
می 
نگنجد 
در 
بیان 
تن 
ز 
سہمش 
بیخبر 
گردد 
ز 
جان 
میں نے جو کچھ وہاں دیکھا وہ بیان میں نہیں آسکتا؛ اس کے خوف سے بدن پر بیہوشی طاری ہو جاتی ہے۔
What I beheld was indescribable; body by terror was dissundered from soul.
من 
چہ 
دیدم 
قلزمی 
دیدم 
ز 
خون 
قلزمی، 
طوفان 
برون، 
طوفان 
درون 
دیکھتا کیا ہوں؟ ایک خونیں سمندر ہے جس کے اندر بھی طوفان اٹھ رہے ہیں اور باہر بھی۔
What met my eyes? A sea of blood I viewed tempest-torn outwardly and inwardly;
در 
ہوا 
ماران 
چو 
در 
قلزم 
نہنگ 
کفچہ 
شبگون 
بال 
و 
پر 
سیماب 
رنگ 
اس کی فضا میں ایسے سانپ تھے جن کے پھن رات کی طرح سیاہ اور بال و پر سیماب کی طرح تھے، نہنگوں کی طرح لہرا رہے تھے۔
The air swarmed with snakes, as with sharks the sea, their hoods black as night, their pinions quicksilver;
موجہا 
درندہ 
مانند 
پلنگ 
از 
نہیبش 
مردہ 
بر 
ساحل 
نہنگ 
اس کی موجیں چیتوں کی طرح چیرنے پھاڑنے والی تھیں، اس کے خوف سے نہنگ ساحلوں پر مردہ پڑے تھے۔
Billows roaring and rending like panthers so that the sharks in terror of them lay dead on the shore.
بحر 
ساحل 
را 
امان 
یک 
دم 
نداد 
ہر 
زمان 
کہ 
پارہ 
ئے 
در 
خون 
فتاد 
یہ بحر اپنے ساحل کو ایک لمحے کے لیے بھی سکون میں نہیں رہنے دیتا تھا کیونکہ اس خونیں سمندر کے اندر ہر وقت پہاڑوں کی چٹانیں گر رہی تھیں۔
The sea gave the shore not one moment’s respite; every instant mountain-blocks fell crashing in blood.
موج 
خون 
با 
موج 
خون 
اندر 
ستیز 
درمیانش 
زورقی 
در 
افت 
و 
خیز 
خونیں موجیں آپس میں متلاطم تھیں اور ان کے درمیان ایک کشتی افتاں و خیزاں تھی۔
Bloody wave fought with wave of blood, whilst in their midst a skiff tossed up and down;
اندر 
آن 
زورق 
دو 
مرد 
زرد 
روی 
زرد 
رو 
عریان 
بدن 
آشفتہ 
موی 
کشتی کے اندر دو مرد بیٹھے ہوئے تھے جن کے چہرے زرد، بدن عریاں اور بال پراگندہ تھے۔
In that skiff were two men pale of cheek, pale of cheek, naked, with hair dishevelled.
جاوید نامہ > فلک زحل
آشکارا می شود روح ہندوستان