Translation Settings
رموزِ بیخودی · مثنوی مطالب خلاصۂ در تفسیر اخلاص
اﷲالصمد
‘God, The Self-Subsistent’
01
گر
بہ
اﷲ
الصمد
دل
بستہ
ئی
از
حد
اسباب
بیرون
جستہ
ئی
اگر تو نے اﷲ الصمد سے دل لگایا ہے تو تو اسباب کی حدود کو پھلانگ گیا۔
If thou hast bound thy faithful heart on God the Self-subsistent, thou hast overlept the rim of things material.
03
بندۂ
حق
بندۂ
اسباب
نیست
زندگانی
گردش
دولاب
نیست
للہ تعالے کا بندہ بندہء اسباب نہیں؛ اس کے لیے زندگی رہٹ کی گردش نہیں۔
No slave to things material God’s servant is; life is no turning of a water-wheel.
05
مسلم
استی
بے
نیاز
از
غیر
شو
اھل
عالم
را
سراپا
خیر
شو
اگر تو مسلمان ہے تو غیر اللہ سے بے نیاز ہو جا اور دنیا والوں کے لیے سراپا خیر بن جا۔
If thou be Muslim, be not suppliant of other’s succour; be the embodiment of good to all the world.
07
پیش
منعم
شکوۂ
گردون
مکن
دست
خویش
از
آستین
بیرون
مکن
دولتمند کے سامنے قسمت کی شکایت نہ کر اور رہ اس کے سامنے ہاتھ پھیلا۔
Make not complaint of scurvy fortune to the fortunate, nor from thy sleeve reach out a beggar’s hand.
09
چون
علی
در
ساز
بانان
شعیر
گردن
مرحب
شکن
خیبر
بگیر
سیدنا علی مرتضی (رضی اللہ) کی طرح جؤ کی روٹی پر گذارہ کر؛ اور مرحب کی گردن توڑ اور خیبر فتح کر۔
Like Ali, be content with barley-bread; break Marhab’s neck, and capture Khyber’s fort.
11
منت
از
اہل
کرم
بردن
چرا
نشتر
لا
و
نعم
خوردن
چرا
دولتمند وں کا احسان کیوں اٹھائے گا ؛ ان کے 'ہاں' اور 'نہ' سے کیوں غم کھائے گا۔
Why bear the favour of the bountiful, why feel the lancet of their nay and yea?
13
رزق
خود
را
از
کف
دونان
مگیر
یوسف
استی
خویش
را
ارزان
مگیر
رذیلوں کے ہاتھ سے رزق نہ لے؛ تو یوسف ہے اپنی قیمت کم نہ لگا۔
Take not the sustenance from mean, base hands; thou art a Joseph; count thyself not cheap.
15
گرچہ
باشی
مور
و
ھم
بے
بال
و
پر
حاجتی
پیش
سلیمانی
مبر
اگر تو بے بال و پر چیونٹی ہو تو بھی سلیمان (علیہ) کے سامنے اپنی حاجت پیش نہ کر۔
And if thou be an ant, and lackest wings and feathers, go not unto Solomon to plead thy want.
17
راہ
دشوار
است
سامان
کم
بگیر
در
جہان
آزاد
زی
آزاد
میر
راہ کٹھن ہے تھوڑا سامان لے؛ دنیا میں آزاد رہ اور آزاد مر۔
The road is arduous; go light-accoutred, if thou wouldst attain; unfettered live thy days, unfettered die.
19
سبحۂ
"اقلل
من
الدنیا"
شمار
از
"تعش
حراً"
شوی
سرمایہ
دار
دنیا سے 'بہت قلیل لے' کی تسبیح پھیر تاکہ تو 'آزادانہ زندگی' کا سرمایہ پائے۔
Count o’er the rosary of Take thou less of this world’s goods, and thou shalt riches win in living free.
21
تا
توانی
کیمیا
شو
گل
مشو
در
جھان
منعم
شو
و
سائل
مشو
جہاں تک ہو سکے کیمیا بن؛ مٹی نہ بن، دنیا میں غنا اختیار کر سائل نہ بن۔
So far as in thee lies become that Stone of the philosophers, not the base dross; a benefactor be, not a petitioner for others’ alms.
23
اے
شناسای
مقام
بوعلی
جرعہ
ئی
آرم
ز
جام
بوعلی
تو حضرت بو علی (رضی اللہ) کے مقام کو پہچانتا ہے؛ میں تیرے لیے ان کے جام سے ایک الگ گھونٹ لایا ہوں۔
Thou knowest well bu Ali’s eminence, accept from me this draught, drawn from his cup.
25
"پشت
پا
زن
تخت
کیکاوس
را
سر
بدہ
از
کف
مدہ
ناموس
را"
'تخت کیکاؤس کو ٹھوکر مار ؛ جان دے دے مگر ناموس ہاتھ سے نہ دے'
‘Trample Kai-Kaus’ throne beneath thy foot; yield up thy life, but not thy self-respect!’
27
خود
بخود
گردد
در
میخانہ
باز
بر
تہے
پیمانگان
بے
نیاز
ایسے خود دار لوگ جن کے پیمانے خالی ہیں ؛ ان پر میخانے کے دروازے خود بخود کھل جائیں گے۔
The tavern door stands open of itself, to those whose bowls are empty, whose needs none.
29
قاید
اسلامیان
ہارون
رشید
آنکہ
نقفور
آب
تیغ
او
چشید
عباسی فرمانروا ہارون الرشید جس کی تلوار کی کاٹ کا مزہ نقفور نے چکھا۔
Harun Rashid, that captain of the Faith, whose blade to Nicephor of Byzance proved a deadly potion,
31
گفت
مالک
را
کہ
اے
مولای
قوم
روشن
از
خاک
درت
سیمای
قوم
اس نے امام مالک (رحمتہ اللہ) سے کہا اے آقائے قوم تیرے دروازے کی خاک سے قوم کی پیشانی چمک اٹھی ہے۔
Unto Malik spoke the dust before whose door illuminates, my people’s brow, melodious nightingale upon this fashion:
33
اے
نوا
پرداز
گلزار
حدیث
از
تو
خواہم
درس
اسرار
حدیث
گلزار حدیث کے نغمہ خواں میں آپ سے حدیث شریف کا درس لینا چاہتا ہوں۔
‘Master of my folk, carolling mid the roses of good words, I am desirous to be taught by thee the secrets of those words.
35
لعل
تا
کی
پردہ
بند
اندر
یمن
خیز
و
در
دارالخلافت
خیمہ
زن
کب تک لعل یمن کے اندر پردہ بند رہے گا ؛ آپ اٹھیں اور دارا لخلافہ میں تشریف فرما ہوں۔
How long art thou content in Yemen to conceal the glow of thy bright rubies? Rise, and pitch thy tent here, in the homestead of the Caliphate.
37
اے
خوشا
تابانی
روز
عراق
اے
خوشا
حسن
نظر
سوز
عراق
عراق کے دنوں کی چمک کیا خوب ہے؛ عراق کا حسن ، نظر سوز کیا سہانا ہے۔
How fair the brightness of the shining day, the captivating beauty of Iraq!
39
میچکد
آب
خضر
از
تاک
او
مرھم
زخم
مسیحا
خاک
او
یہاں کے انگور سے آب حیات ٹپکتا ہے؛ یہاں کی خاک زخموں کے لیے مرہم مسیحا کا کام کرتی ہے۔
The Fount of Khizer gushes from its vines, its earth is healing for the wounds of Christ.’
41
گفت
مالک
مصطفی
را
چاکرم
نیست
جز
سودای
او
اندر
سرم
امام مالک (رحمتہ اللہ ) نے فرمایا میں جناب رسول پاک (صلعم) کا غلام ہوں ؛ میرے اندر صرف حضور (صلعم) کی غلامی کا سودا سمایا ہوا ہے۔
‘I am the Prophet’s (S.A.W.) servant’, Malik said, ‘And only him I love, with all my heart.
43
من
کہ
باشم
بستۂ
فتراک
او
بر
نخیزم
از
حریم
پاک
او
میں ان (صلعم) کی محبت کے فتراک میں بندھا ہوا ہوں اس لیے ان کے حریم پاک (مدینہ منوّرہ سے) کہیں جا نہیں سکتا۔
Bound to his saddle-bow, I will not quit his holy sanctuary.
45
زندہ
از
تقبیل
خاک
یثربم
خوشتر
از
روز
عراق
آمد
شبم
خاک یثرب کو بوسہ دینا ہی میری زندگی ہے؛ اس وجہ سے میری رات روز عراق سے بہتر ہے۔
By the kiss of Yathrib’s dust I live; my night to me is fairer that Iraq’s pellucid day.
47
عشق
می
گوید
کہ
فرمانم
پذیر
پادشاہان
را
بخدمت
ہم
مگیر
عشق کہتا ہے کہ صرف میرا حکم مان؛ بادشاہوں کا حکم نہ مان۔
Love says, ‘Obey my ordinance; sign not; the articles of service even to kings.’
49
تو
ہمی
خواہی
مرا
آقا
شوی
بندۂ
آزاد
را
مولا
شوی
تو چاہتا ہے کہ تو میرا آقا بنے؛ اور مجھ جیسے بندہء آزاد کو اپنا غلام بنائے۔
Thou wouldst become my master, overlord of this freed slave of God;
51
بہر
تعلیم
تو
آیم
بر
درت
خادم
ملت
نگردد
چاکرت
تجھے پڑھانے کے لیے میں تیرے دروازے پر آؤں ؛ ملّت کا خادم کسی فرد کا چاکر نہیں ہو سکتا۔
That I should wait upon thy door to teach thee, and no more; serve the community, being bound to thee.
53
بہرہ
ئی
خواہی
اگر
از
علم
دین
در
میان
حلقۂ
درسم
نشین
تو اگر علم دین حاصل کرنا چاہتا ہے تو آ کر میرے حلقہء درس میں بیٹھ۔
Be it thy wish some portion to attain of godly knowledge, in my circle sit and study with the rest.
55
بے
نیازی
نازہا
دارد
بسی
ناز
او
اندازہا
دارد
بسے
بے نیازی کے اندر بھی بہت سے ناز ہیں؛ اور اس ناز کے انداز بھی بہت سے ہیں۔
Indifference to worldly needs engenders fine disdain, And holy pride takes many splendid shapes.’
57
بے
نیازی
رنگ
حق
پوشیدن
است
رنگ
غیر
از
پیرہن
شوئیدن
است
بے نیازی اللہ تعالے کا رنگ اپنا اور غیر کا رنگ اپنے آپ سے دھو دینا ہے۔
Godly indifference is to put on the hue of God, and from thy robe to wash the dye of otherness.
59
علم
غیر
آموختی
اندوختی
روی
خویش
از
غازہ
اش
افروختی
تو نے غیروں کا علم سیکھا اور اسے اکٹھا کیا؛ ان کے غازے سے اپنا چہرہ چمکایا۔
But thou hast learned the rote of others, taking that for store, an alien rouge to beautify thy face;
61
ارجمندی
از
شعارش
میبری
من
ندانم
تو
توئے
یا
دیگری
ان کے شعار اختیار کر کے ارجمند ہونے کی کوشش کی؛ میں نہیں جانتا کہ تو تو ہے، یا کوئی اور (اب تیری شکل بھی پہچانی نہیں جاتی)۔
In those insignia thou takest pride, until I know not if thou be thyself or art another.
63
از
نسیمش
خاک
تو
خاموش
گشت
وز
گل
و
ریحان
تہی
آغوش
گشت
غیروں کی نسیم نے تیری خاک کو بنجر بنا دیا اور گل و ریحان سے خالی کر دیا۔
Fanned by foreign blasts thy soil is fallen silent, and no more fertile in fragrant roses and sweet herbs.
65
کشت
خود
از
دست
خود
ویران
مکن
از
سحابش
گدیۂ
باران
مکن
اپنی کھیتی اپنے ہاتھ سے ویران نہ کر؛ غیروں کے بادل سے بارش کی بھیک نہ مانگ۔
Desolate not thy tilth with thy own hand; Make it not beg for rain from alien clouds.
67
عقل
تو
زنجیری
افکار
غیر
در
گلوی
تو
نفس
از
تار
غیر
تیری عقل بھی غیروں کے افکار کی قیدی بن چکی ہے؛ تیرے گلے میں جو سانس ہے وہ بھی غیروں کا مرہون منت ہے۔
Thy mind is prisoner to others’ thoughts, another’s music throbs within thy throat;
69
بر
زبانت
گفتگوہا
مستعار
در
دل
تو
آرزوہا
مستعار
تیری زبان کی گفتگو اور دل کی آرزو سب مستعار ہیں۔
Thy very speech is borrowed, and thy heart dilates with aspirations not thine own.
71
قمریانت
را
نواہا
خواستہ
سروہایت
را
قباہا
خواستہ
تیری قمریوں کی نوا، اور تیرے سرو کی قبا مانگی ہوئی ہے۔
The song thy ring-doves sing, the leafy gowns, that deck thy cypresses, are meanly begged;
73
بادہ
می
گیری
بجام
از
دیگران
جام
ھم
گیری
بوام
از
دیگران
اپنے جام میں دوسروں سے شراب لیتا ہے؛ اور جام بھی دوسروں سے قرض لیتا ہے۔
Thou takest wine from others in a bowl, itself from others taken upon loan.
75
آن
نگاہش
سر
"ما
زاغ
البصر"
سوی
قوم
خویش
باز
آید
اگر
وہ پاک ذات (صلعم) جن کی نگاہ ’ما زاغ البصر‘ کا راز تھی اگر وہ موجودہ مسلمانوں کی طرف دوبارہ تشریف لائیں۔
If he, whose glance contains the mystery, erred not the sight – if he should come again.
77
می
شناسد
شمع
او
پروانہ
را
نیک
داند
خویش
و
ہم
بیگانہ
را
تو آپ (صلعم) کی شمع اپنے پروانے کو پہچان لے کہ کون ان میں سے اپنے ہیں اور کون بیگانے۔
Unto his people, he whose candle-flame knows its own moth, who can distinguish well his own from strangers standing at the gate;
79
"لست
منی"
گویدت
مولای
ما
وای
ما،
اے
وای
ما،
اے
وای
ما،
ہم پر افسوس صد افسوس کہ (ہم میں سے بیشتر کے بارے میں) حضور (صلعم) یہ ارشاد فرمائیں کہ 'تو مجھ سے نہیں ہے'۔
Our master would declare, thou art not mine. Woe, woe, alas for us upon that day!
81
زندگانی
مثل
انجم
تا
کجا
ہستی
خود
در
سحر
گم
تا
کجا
کب تک ستاروں کی مانند اپنی ہستی کو دور حاضر کی صبح کاذب میں گم کیے رکھو گے۔
How long wilt thou content thyself to live the life of stars, that in the risen morn lose all their being?
83
ریوی
از
صبح
دروغی
خوردہ
ئی
رخت
از
پہنای
گردون
بردہ
ئی
تو نے صبح کاذب سے فریب کھا کر اپنے آپ کو آسمان کی وسعت سے گم کر لیا ہے۔
Thou hast been deceived by the false dawn, packed up thy goods and gone from the broad firmament.
85
آفتاب
استی
یکی
در
خود
نگر
از
نجوم
دیگران
تابے
مخر
ذرا اپنی طرف نظر ڈال تو آفتاب ہے؛ تجھے دوسروں کے ستاروں سے روشنی لینے کی ضرورت نہیں۔
Thou art the sun; look on thy self a little; purchase not some shreds of radiance from others’ stars!
87
بر
دل
خود
نقش
غیر
انداختی
خاک
بردی
کیمیا
در
باختی
تو نے اپنے دل پر غیروں کا نقش ثبت کر لیا ہے؛ تو نے ان سے خاک لے لی اور اپنی کیمیا کھو دی۔
Thou hast engraved thy heart with alien shapes, gambled the alchemy and gained the dross;
89
تا
کجا
رخشی
ز
تاب
دیگران
سر
سبک
ساز
از
شراب
دیگران
تو کب تک دوسروں کی روشنی سے چمکے گا؛ غیروں کی شراب کا نشہ اپنے سر سے اتار دے۔
How long this glittering with others’ shine? Shake off heavy fumes for foreign grapes!
91
تا
کجا
طوف
چراغ
محفلی
ز
آتش
خود
سوز
اگر
داری
دلی
کب تک چراغ محفل کا طواف کرے گا؛ اگر دل رکھتا ہے تو اپنی آگ میں جل۔
How long this fluttering about the flame of party lanterns? If thou hast a heart within thy breast, with thine own ardour burn!
93
چون
نظر
در
پردہ
ہای
خویش
باش
می
پر
و
اما
بجای
خویش
باش
نظر کی مانند اپنے پردوں کے اندر رہ؛ پرواز کر مگر اپنی جگہ پر رہتے ہوئے۔
Be like the gaze, wrapped round in thy own veils; rise on the wing, but ever wheel back home;
95
در
جہان
مثل
حباب
اے
ہوشمند
راہ
خلوت
خانہ
بر
اغیار
بند
اے عقلمند حباب کی مانند اپنے خلوت خانے کے دروازے دوسروں پر بند رکھ۔
Bubble-like bar thy little privacy, against the intruder, if thou wouldst be wise.
97
فرد،
فرد
آمد
کہ
خود
را
وا
شناخت
قوم،
قوم
آمد
کہ
جز
با
خود
نساخت
فرد وہ فرد ہے جس نے اپنے آپ کو پرانی طرح سمجھ لیا؛ قوم وہ قوم ہے جس نے اپنے سوائے کسی اور سے موافقت نہ کی۔
No man to individuality ever attained, save that he knew himself. No nation came to nationhood, except it spurned to suit the whim of other men.
99
از
پیام
مصطفی
آگاہ
شو
فارغ
از
ارباب
دون
اﷲ
شو
حضور اکرم (صلعم) کے پیغام کو سمجھ لے اور اللہ تعالے کے سوائے اور جتنے آقا ہیں ان سے فارغ ہو جا۔
Then of our Prophet’s (S.A.W.) message be apprised, and have thou done with other lords but God.
رموزِ بیخودی > مثنوی مطالب خلاصۂ در تفسیر اخلاص
لم یلد ولم یولد
رموزِ بیخودی > مثنوی مطالب خلاصۂ در تفسیر اخلاص
قل ہواللہ احد