Translation Settings
پیامِ مشرق · می باقے
01
موج
را
از
سینۂ
دریا
گسستن
میتوان
بحر
بی
پایان
بہ
جوی
خویش
بستن
میتوان
موج کو سینہ ء دریا سے الگ کیا جا سکتا ہے؛ بے پایاں سمندر کو اپنی ندی میں مقید کیا جا سکتا ہے۔
A wave can well be severed from the bosom of the sea, and you can well enclose the boundless sea within the channel of your private stream.
03
از
نوائی
میتوان
یک
شہر
دل
در
خون
نشاند
یک
چمن
گل
از
نسیمی
سینہ
خستن
میتوان
اپنی نوا سے پورے شہر دل کو خون میں نہلایا جا سکتا ہے؛ باد نسیم سے سارے پھولوں بھرے چمن کا سینہ زخمی کیا جا سکتا ہے۔
A city full of hearts can well be made to bleed with a poignant song. A garden full of flowers can well be pierced by a whiff of the morning breeze.
05
می
توان
جبریل
را
گنجشک
دست
آموز
کرد
شہپرش
با
موی
آتش
دیدہ
بستن
میتوان
جبریل (علیہ) کو اپنے ہاتھ کی سدھائی ہوئی چڑیا بنایا جا سکتا ہے؛ اس کے شہپر کو آگ لگے ہوئے بال سے باندھا جا سکتا ہے۔
The mighty Gabriel can well be turned into a hand-trained sparrow. His wings can well be tied up with a single near-singed hair.
07
اے
سکندر
سلطنت
نازکتر
از
جام
جم
است
یک
جہان
آئینہ
از
سنگی
شکستن
میتوان
اے سکندر ! (بڑی سے بڑی) سلطنت بھی جام جم سے زیادہ نازک ہے؛ آئینے کا بھرا ہوا جہان ، ایک پتھر سے توڑا جا سکتا ہے۔
O Alexander, kingship is more frail than Jamshid’s cup. A whole world full of mirrors can be smashed with but a single stone.
09
گر
بخود
محکم
شوی
سیل
بلا
انگیز
چیست
مثل
گوھر
در
دل
دریا
نشستن
میتوان
اگر تو اپنے اندر محکم ہو جائے تو بڑا سے بڑا سیلاب بھی کوئی چیز نہیں، دریا کے دل میں گوہر کی مانند (سکون سے ) بیٹھا جا سکتا ہے۔
If you are stable in yourself, what harm can a destructive flood do you? For you can settle at its bottom as a pearl does at the bottom of the sea.
11
من
فقیرم
بی
نیازم
مشربم
این
است
و
بس
مومیائی
خواستن
نتوان،
شکستن
میتوان
میں فقیر بے نیاز ہوں یہی میرا طریق ہے ؛ میں ٹوٹ تو سکتا ہوں لیکن مومیائی کی گدائی نہیں کر سکتا۔
Ascetic that I am, too proud to ask, my creed is this: That I had rather see my body break to bits than seek a medicine to keep it whole.
English Translation by: M. Hadi Husain
پیامِ مشرق > می باقے
صد نالہ شبگیری صد صبح بلا خیزی
پیامِ مشرق > می باقے
ز خاک خویش طلب آتشی کہ پیدا نیست