آفتاب نے سحر کی پیشانی کو مزیّن کر دیا ہے؛ اس نے سحر کے کان میں اپنے خون جگر کا آویزہ لٹکا دیا ہے؛ دشت و جبل سے قافلے سفر پر چل نکلے ہیں ؛ اے چشم جہاں بیں تو بھی تماشائے جہاں کے لیے اٹھ۔
اس خواب گراں ، خواب گراں ، خواب گراں سے بیدار ہو! خواب گراں سے بیدار ہو!
Now the sun, that doth adorn with his rays the brow of morn, doth suffuse the cheeks thereof with the crimson blush of love. Over mountain, over plain caravans take route again; bright and world-beholding eyes, gaze upon the world, and rise!
Out of leaden sleep, out of slumber deep: Arise! Out of slumber deep: Arise!